آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
تعلیمِ فداکاری قبل از موت جان دے دے نہ رب کو تو ناراض کر کون مرتا ہے ناصرؔ اجل کے بغیر یعنی اﷲ کو ناراض نہ کرو چاہے جان چلی جائے، اگر شیطان کان میں کہے کہ حسینوں کو نہ دیکھنے سے مرجاؤ گے، ہارٹ فیل ہوجائے گا تو کہو ہم مرنے ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَہم حاضر ہیں جان دینے کے لیے ؎ کون مرتا ہے ناصرؔ اجل کے بغیر اس شعر کے معنیٰ یہ ہیں کہ بغیر اجل کے اور وقت کے کون مرسکتا ہے؟ لیکن نیت تو کر لو مرنے کی، مگر اﷲ تعالیٰ سے حیات پاجاؤ گے، یہ بہت عمدہ عارفانہ شعر ہے، اگر اس وقت متقدمین ہوتے تو آپ کو کوئی خرقہ دیتا، کوئی کرتا دیتا، مگر اب وہ زمانہ نہیں ہے، شاعروں کو ہدیہ دینے کارواج مفقود ہوگیا ہے، پہلے کوئی شعر پسند آگیا تو نواب لوگ ریاست اور گاؤں تک دے دیتے تھے، ایک گاؤں آپ کے نام کردیا اب ساری زندگی آرام سے کھاؤ، لیکن آپ کو دعائیں مل رہی ہیں اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْ حَیَاتِنَا وَحَیَاتِکُمْ اور یہ ایک لحاظ سے اہلِ حق کا عمل بھی بن چکا ہے، بدعتیوں کے یہاں زیادہ نوٹوں کی بارش ہوتی ہے، یہ اُن کا شِعار بن چکا ہے، اس لیے اس لحاظ سے اہلِ حق کی علامت یہی ہے کہ اﷲ کے لیے سناؤ، اﷲ کے لیے سنو، پالنے والا اﷲ ہے۔ دیکھو بڑے بڑے محدثین آپ کو دیکھ رہے ہیں، یہ معمولی نعمت ہے؟ فلوس برسنے سے یہ کتنا افضل ہے کہ اہل اﷲ آپ پر نظر کی بارش کیے ہوئے ہیں اور نظروں سے داد دے رہے ہیں ۔ (اس کے بعد مولانا منصور صاحب نے حضرت والا کی مدح میں اپنے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے) ؎ شاہِ اختر کی باتوں کی کیا بات ہے گفتگو ان کی تفسیرِ آیات ہے الحمد ﷲ!اپنی تعریف سے اﷲکا شکر ادا کرتا ہوں، میرے شیخ نے سکھادیا کہ جب مخلوق تعریف کرے تو یہ کہوکہ اے اﷲ! میرے نیک دوستوں کے نیک گمان کے مطابق مجھ کو ایسا ہی بنا دیجیے، لیکن اس ظالم کے اُردو ادب کی بلاغت کی میں ضرور تعریف کرتا ہوں، بات کی کیابات ہے، یہ معمولی اُردو نہیں ہے، جبکہ یہ پنجاب کے رہنے والے ہیں، لکھنؤ دہلی کے نہیں ہیں۔ سن رہے ہو؟ مزہ آرہا ہے؟ دیکھو یہ سرجن ہے چہرے کا، اگر