آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا دوستو! میرا مضمون ختم ہوگیا لیکن یہ بتائیے، آپ لوگ گھبرائے تو نہیں؟ ٹائم زیادہ تو نہیں ہوگیا؟ بولو بھئی! آپ کا دل کیا کہتا ہے؟ دیکھیے سب لوگ کہہ رہے ہیں کہ ابھی اور سناؤ۔ آہ! لوگ کہتے ہیں کہ مولویوں کی کون سنتا ہے؟ میں کہتا ہوں اے دوستو! اے مولویو! کسی اللہ والے پر فدا ہوجاؤ، دردِ دل حاصل کرلو، تو خدا کی قسم! دردِ دل کے ساتھ جب بیان کروگے تب زمانہ ایسے غور سے سنے گا کہ آپ تھک جائیں گے زمانہ نہ تھکے گا۔ جب رس گلّہ ہوتا ہے تب مزہ آتا ہے، تم نے مدرسوں میں علم کا گولا حاصل کیا ہے، اللہ والوں سے اللہ کی محبت کا رس حاصل نہیں کیا تو خالی گولے کا نام رس گولا نہیں۔ رس مثبت گولا رس گلّہ کہلاتا ہے۔ دس سال تک مدرسوں میں پڑھتے ہو تو چھ مہینہ کسی اللہ والے کے قدموں میں اپنے کو ڈال دو تاکہ رس بھی مل جائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری کون سنتا ہے؟ اس پر بھی ایک شعر سن لو ؎ زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا ہم ہی تھک گئے داستاں کہتے کہتے اور میرا بھی ایک خاص شعر اس پر ہے کہ ؎ میں تھک جاتا ہوں اپنی داستانِ درد سے اخترؔ مگر میں کیا کروں چپ بھی نہیں مجھ سے رہا جاتا اللہ کا شکر ہے کہ اتنی دیر تک بیان ہوا، آپ سب سے پوچھ لیجیے، مجھے بھی ان کی نگاہوں سے محسوس ہورہا ہے کہ سب نے اختر کی بات محبت سے سنی ہے، کسی کا دل نہیں گھبرایا، کیوں کہ مولیٰ سے بڑھ کر کس کی داستان ہوگی، اللہ سے بڑھ کر کون پیارا ہے؟ باقی سب چیزیں فانی ہیں۔ بڑے بڑے حسین لڑکے اور بڑی بڑی حسین لڑکیاں جب بڈھے ہوگئے تو سارا جغرافیہ ختم اور ساری عاشقی ختم۔ نہ آہ وزاری ہے، نہ اشکباری ہے، نہ اختر شماری ہے، نہ بے قراری ہے۔ اب دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، شکل دیکھ کر بھاگتے ہیں اور میرا شعر بزبانِ حال پڑھتے ہیں ؎ ادھر جغرافیہ بدلا اُدھر تاریخ بھی بدلی نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی