آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اور اَمّارہ کی تفسیر ہے کَثِیْرُ الْاَمْرِ بِالسُّوْء یعنی ہر قسم کی بُرائیوں کا کثرت سے تقاضا کرنے والا۔ اور حضرت حکیم الامت تھانوی نے نفسِ اَمّارہ کا نام رکھا ہے مرغوباتِ طبعیہ غیرِ شرعیہ یعنی طبیعت کی وہ خواہش جس کی شریعت اجازت نہ دے، جس سے اللہ راضی نہ ہو وہ نفسِ اَمّارہ ہے، لہٰذا جس بات سے طبیعت خوش ہو لیکن مالک خوش نہ ہو اس کام کو چھوڑ دو کیوں کہ طبیعت غلام ہے اور اللہ مالک ہے، لہٰذا غلام کو خوش کرکے اپنے مالک اور پیدا کرنے والے اور پالنے والے کو ناراض کرکے جو ظالم حرام خوشیاں درآمد کرتا ہے اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی کمینہ نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے توبہ و استغفار کا ایک دروازہ کھولا ہوا ہے کہ ظالمو جب تم گناہوں کے دروازوں میں داخل ہو کر کمینے، بے غیرت اور بے حیا بن جاؤ تو استغفار اور توبہ کے دروازے میں داخل ہوکر پھر باحیا، شریف اور باخدا بن جاؤ۔ تو اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ سےمعلوم ہوا کہ نفس اَمَّارَۃْ بِالسُّوْءہمارے پہلو میں رکھ دیا، لیکن آگے اللہ تعالیٰ نے تسلی بھی فرمادی کہ گھبراؤ مت، اگر ہر وقت بُرائی کا تقاضا کرنے والا نفسِ امّارہ دے رہا ہوں تو میں ظالم نہیں ہوں، ارحم الراحمین ہوں، اس کے شر سے ایک استثنا بھی دے رہاہوں اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ کہ اگر میری رحمت کے سائے میں رہوگے تو تمہارا نفسِ امّارہ تمہیں ایک ذرّہ نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ تفسیر روح المعانی میں ہے کہ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ میں جو مَاہے یہ ظرفیہ، زمانیہ، مصدریہ ہے جس کا ترجمہ ہوگا اَیْ فِیْ وَقْتِ رَحْمَۃِ رَبِّیْیعنی جب تک تم میری رحمت کے سائے میں رہو گے نفس کے شر سے محفوظ رہوگے، اور رحمت کی ضد لعنت ہے اور لعنت کی تعریف مفرداتُ القراٰن میں ہے اَلْبُعْدُ عَنِ الرَّحْمَۃِاللہ کی رحمت سے دوری، لہٰذا جو لعنت کے نیچے آجائے گا وہ سایۂ رحمتِ حق سے دور ہوجائے گا، لہٰذا اس زمانے میں سایۂ رحمت سے دور کرنے والی چیز بدنظری ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا ہے لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ؎ اللہ لعنت کرے حرام نظر کرنے والے پر اور اپنے پرحرام نظر ڈلوانے والے پر۔ لہٰذا بدنظری سے لعنت آئے گی اور لعنت آئے گی تو رحمت کا سایہ ہٹ جائے گا ۔ ایسا شخص پھر ہر گناہ کرسکتا ہے ، ہر گناہ کا دروازہ اس کے لیے کھل جائے گا اور گناہ کی آخری منزل یعنی بدفعلی تک بدنظری پہنچا دے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ کا شکر کرو کہ جس نے اپنے کلام میں غضِّ بصر کا حکم نازل فرمادیا ۔ اگر یہ معمولی بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس کو قرآنِ پاک میں نازل نہ فرماتے اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم حدیث ِپاک میں اس کی حرمت کا اعلان نہ فرماتے۔ ------------------------------