آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
پیا جس کو چاہے سہاگن وہی ہے بعض وقت بے ہنر، ناک کی چپٹی بیوی کو شوہر پیار کرتا ہے، اور دوسری طرف نہایت حسین بیوی کی پٹائی ہوتی ہے۔ میرے پاس ایسے کتنے واقعات آئے کہ بیوی نہایت حسین ہے مگر بیچاری ہر وقت مار کھا رہی ہے اور اس کے مقابلے میں کالی کلوٹی چپٹی ناک والی کو اس کے شوہر کا پیارمل رہا ہے، تو اپنی قابلیت کو مت دیکھو کہ میں تو شیخ کو اتنا آرام پہنچاتا ہوں اور شیخ بلاوجہ مجھ سے ناراض ہے، یہ دیکھو کہ ؎ پیا جس کو چاہے سہاگن وہی ہے حکیم الامت کاجملہ یاد رکھو کہ جس کو دو چیزیں یعنی اتباعِ سنت اور شیخ کی رضا حاصل ہو پھر اس کے اندھیرے بھی اُجالے ہیں۔ اور جو ہر وقت شیخ کے ساتھ رہنے والے ہیں ان پر زیادہ ذمہ داری ہے کہ میری ذات سے شیخ کو کوئی اذیت نہ پہنچے۔ جو چوبیس گھنٹہ شیخ کے ساتھ رہتا ہے اس کی رفاقت میںحَسُنَ بہت ضروری ہے وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا میرے شیخ فرماتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں حَسُنَ کیوں نازل فرمایا؟ اس لیے کہ ساتھ تو رہو مگر رفاقت حسین ہو۔ اس لیے ایک ایک لفظ کو پہلے سوچو پھر بولو، زیادہ بات بھی نہ کرو کہ بعض وقت احمقانہ الفاظ سے شیخ کو اذیت پہنچے گی۔ کوئی کتنا ہی بے وقوف ہو اگر وہ اﷲ سے مانگے گا تو اﷲ تعالیٰ اس کی عقل میں نور ڈال دے گا، اﷲ کا فضل عقل کے ساتھ جب مل جائے گا تو اس کی عقل میں اُجالا آجائے گا اور وہ ہمیشہ اچھا کام کرے گا اور کامیاب ہوجائے گا۔ بعض وقت بے وقوفوں نے اﷲ کو راضی کرلیا اور عقل مندوں سے نالائقیاں ہوگئیں۔ بے وقوف نے اپنی نادانی کے باوجود اپنی چھوٹی سی عقل سے اﷲ کو اﷲ سے مانگ لیا اور عقل مند نے ناز کیا کہ میں تو بہت ہی قابل ہوں اور اس نے نہیں مانگا تو عقل والوں سے ایسی نالائقیاں صادر ہوئیں جس کی حد نہیں۔موذی مرید حکیم الامت کا ایک مرید تھا، اتنا قابل تھا کہ جب حضرت والا اُردو میں بیان کرتے تھے تو وہ عربی میں لکھتا تھا، مگر اس ظالم کو اپنی ذہانت پر تکبر ہوگیا، اپنی عقل پر اﷲ کے فضل کو نہیں مانگا، نتیجہیہ نکلا کہ حضرت والا کے مسلک کے خلاف ہوگیا اور خانقاہ میں بیٹھ کر مقابلے شروع کردیے، حضرت نے فرمایا کہ اگر تم کو مخالفت کرنی ہی ہے تو تم یہاں سے چلے جاؤ لیکن وہ نہ گیا، اس کو اپنی عقل پر اتنا ناز ہوا کہ میں حق پر ہوں،