آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
رزقِ الٰہی کے دروازے کو بلا مجبوری چھوڑنا نہیں چاہیے اور علماء دین سے کہتا ہوں کہ دیکھو اُس شیخ کو اپنا کفیل بناؤ جو مثل فیل کے ہو، یہاں کاف تمثیلیہ ہے، کفیل یعنی مثل ہاتھی، کمزور بکری کو اگر شیخ بناؤ گے تو وہ بھی مرے گی تم بھی مرو گے، اور دیکھو لگی لگائی روزی مت چھوڑو۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مشورہ لیا کہ میرا کاروبار یہاں ہے، اب میں عراق میں شروع کرناچاہتا ہوں۔ فرمایا کہ لَا تَفْعَلْ کَذَاایسا مت کرو، کیوں کہ میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ روزی کے دروازے کو بلا مجبوری مت چھوڑو، وہ رزقِ الٰہی کا دروازہ ہے، ایسا نہ ہو کہ یہاں سے بھی جائے وہاں سے بھی جائے۔ بعض لوگ روزی کا دروازہ چھوڑ کر کہیں اور زیادہ بڑے آدمی بننے کے لیے گئے تو جو روزی تھی وہ بھی گئی اور جہاں بڑے آدمی بننے گئے تھے وہاں سے چھوٹے آدمی بن کے آئے، اس لیے حلال روزی کے دروازے کی قدر کرو، وہ اﷲ کی طرف سے دروازہ ہے۔ ۳؍رجب المرجب ۱۴۱۹ ھ مطابق۲۵؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء، لینیشیابعض اشعار بمنزلۂ ذکر اللہ ہیں مولانا منصور کے بھائی نے حضرت والا کے اشعار پڑھے تو ایک صاحب نے کہا کہ اب ذکر ہوگا۔ اس پر ارشاد فرمایا کہ یہ اشعار ذکر ہیں۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ بعض عاشقوں کے لیے مثنوی شریف بمنزلۂ ذکر ہے، میرے اشعار بھی ان شاء اﷲ بمنزلۂ ذکر سمجھ لو۔ بتاؤ! ان اشعار سے اﷲ کی یاد آئی کہ نہیں؟ ہر وقت میری جاں آپ پر فدا ہو کتنا دردناک شعر ہے کہ ہر سانس، ہر لمحہ اﷲ پر جان فدا ہو اور اس طرح فدا ہو کہ دنیا کو پتا بھی نہ چلے، کیوں کہ جان اندر ہے، اس کا فدا ہونا کوئی دیکھ نہیں سکتا ؎ آپ پر ہر دم فدا ہو میری جاں غیر کی مجھ کو نہ پروا چاہیے اﷲ والوں کے قلب کو ہر وقت تجلیاتِ متواترہ، مسلسلہ، وافرہ، بازغہ عطا ہوتی ہیں اور ان کی روح بھی ہر تجلی پر فدا ہوتی ہے، جب تجلی متواتر ہے تو فدا کاری بھی متواتر ہے، جب تجلیاتِ قربِ الٰہیہ مسلسلہ ہیں تو فدا کاری بھی مسلسلہ ہے۔ اب اور کیا چاہتے ہو!