آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
مخلوق ہے اور اس کا دل بھی مخلوق ہے، تو بدنظری سے اپنا دل خوش کرکے مداراتِ خلق تو کررہاہے لیکن اللہ کے قانون کی رعایت نہیں کررہا ہے۔ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ کےحکم کو توڑ رہا ہے اور اپنا دل حرام خوشیوں سے جوڑ رہا ہے لہٰذا اچھے اخلاق اس کو حاصل نہیں، اس لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسنِ اخلاق مانگا کہ جب تم کواللہ تعالیٰ حسنِ اخلاق دے گا تومداراتِ خلق کے ساتھ تم کو توفیق مراعاتِ حق بھی دے گا۔ اس کے بعد حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مانگا وَالرِّضَا بِالْقَدْرِمعلوم ہوا کہ حسنِ اخلاق کا مدار رضا بالقدر پر ہے کیوں کہ حسنِ اخلاق کی توفیق اسی کو ہوگی جو اللہ کے فیصلے پر راضی ہوگا۔ جو اللہ کی قضا و قدر یعنی تقدیر پر راضی نہیں ہوگا وہ حسنِ اخلاق کا حامل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ مراعاتِ حق نہیں کرے گا مثلاً کہے گا کہ میری بیوی تو بدصورت ہے اور دوسری عورتیں کیسی اچھی ہیں تو جب یہ تقدیرپر راضی نہ ہوگا تو اپنا دل خوش کرنے کے لیے اللہ کے قانون کو توڑے گا اور اپنے مخلوق دل کو خوش کرکے مراعاتِ خلق کرے گا لیکن مراعاتِ حق کا پاس نہیں کرے گا اور حسنِ خُلق سے محروم ہوجائے گا۔ معلوم ہوا کہ حُسنِ خُلق کی بنیاد رضا بالقدر پر ہے۔ جو تقدیر پر راضی رہے گا وہ مداراتِ خلق تو کرے گا مگر مراعاتِ حق کے ساتھ۔ جیسی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمادی اس پر راضی رہے گا، اپنے مخلوق دل کی مدارات اسی حد تک کرے گا جس حد تک اللہ راضی ہے، وہ اللہ کو ناراض کرکے مخلوق کو خوش نہیں کرے گا، اس کی مداراتِ خلق مراعاتِ حق کے ساتھ ہوگی، کیوں کہ یہ راضی برضائے حق ہے اس لیے حسنِ اخلاق کا حامل ہوگا۔ (احقر راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ مجلس میں حضرت والا سے تعلق رکھنے والے بعض بڑے علماء جو بخاری شریف پڑھا رہے ہیں موجود تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس حدیث پاک کی ایسی شرح زندگی بھر نہ کہیں پڑھی نہ سنی۔) حضرت والا نے فرمایا کہ اگر اس وقت سارے عالم کے علماء ہوتے تو اس تقریر پر وجد کرتے، کیوں کہ میری یہ تقریر کتب بینی سے نہیں قطب بینی کی وجہ سے ہے۔ جن اللہ والوں کو اختر نے دیکھا اور ان کی جوتیاں اُٹھائیں یہ ان کا فیض ہے میرا کمال نہیں۔افطارکے وقت قبولیتِ دعا کاراز ارشاد فرمایا کہ افطار کے وقت دعا قبول ہونے کا راز اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمایا کہ بھوک لگی ہوئی ہے، شدید پیاس ہے، سامنے کھانا، ٹھنڈا پانی اور شربتِ روح افزا جس میں برف کے ٹکڑے پڑے ہیں، رکھا