آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
قسمت کی بات ہے۔ اﷲ بھی تقدیر سے ملتا ہے جیسے روزی تقدیر سے ملتی ہے، اولاد تقدیر سے ملتی ہے، ہر نعمت منعم کی مشیت سے ملتی ہے تو اﷲ بھی تقدیر سے ملتا ہے۔ تو ایک مرتبہ شاہ صاحب اپنی اولاد پر بہت روئے کیوں کہ اولاد سے تعلق ہوتا ہے تو دل میں درد بھی ہوتا ہے تو روتے ہوئے فرمایا ؎ شاہ کدن کے سات پوت ساتوں نکھٹّا ساری کمائی شاہ کدن کی علی عاشقان لُٹّا یعنی شاہ قرن کے ساتوں بیٹے تو نالائق نکلے اور شاہ قرن کی ساری کی ساری کمائی دہلی سے علی عاشقان لوٹ کر لے گیا اور قریب والے رہ گئے۔ اس لیے قریب سے مراد قربِ حسی اور قربِ جسمانی نہیں ہے قربِ قلبی وروحانی ہے۔ ایک شخص کعبہ میں ہے اور اﷲ سے دور ہے، بوجہ نافرمانی و غفلت کے اﷲ کے گھر میں اﷲ سے دور ہے، اس کو میں کس طرح سمجھاؤں کہ روح ہر وقت فدا ہوتی رہے ؎ دل و جاں اے شاہ قربانت کنم اے اﷲ! میرا دل اور میری جان ہر وقت آپ پر فدا ہوں۔ یہ مضمون کیسے سمجھاؤں اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں میرے پاس۔ اے خدا! میرے دل وجاں ہر لمحہ آپ پر فدا ہوں، ہر سانس آپ پر فدا ہو، اب کیسے فدا ہو اس کو کیسے سمجھاؤں، اگر نہیں سمجھ میں آتا تو عشقِ مولیٰ کو عشقِ لیلیٰ سے سمجھ لیں۔ اگر کوئی کسی لیلیٰ پر عاشق ہوجائے تو کہتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ میں ہر سانس، ہر لمحہ اپنی جان آپ پر فدا کروں اور اگر مجھے ایک کروڑ جان ملتی تو میں ہر سانس تم پر فدا کرتا۔ بتائیے! مرنے والے پر یہ حال ہے، جب اس کی شکل بگڑ جائے گی تو ایک جان بھی نہیں دے گا اور جان تو دینا درکنار اگر معشوق کو لقوہ ہوجائے، منہ ٹیڑھا ہوجائے تو اس کو دیکھے گا بھی نہیں، عشقِ لیلیٰ سے عشقِ مولیٰ تو سیکھو مگر عشقِ لیلیٰ کرنا حرام ہے۔ نیک بندہ وہ ہے جو دوسروں سے سبق سیکھے تو کیوں نہ ہم قیس سے سبق لیں کہ ریت پر لیلیٰ لیلیٰ لکھ رہا تھا تو ہم کیوں نہ زبان سے مولیٰ مولیٰ کریں۔ ۳؍رجب المرجب ۱۴۱۹ھ مطابق۲۵؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء، بروز اتوار، بعد فجر ۶ بجے، برمکان جناب یوسف حافظ جی،رسٹن برگحضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیتِ الٰہیہ ارشاد فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون عطا فرمایا کہ اُمت کے سارے صحابہ، سارے