آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے تکوینی راز ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہیں۔ اگر چاہتے تو موت کا فرشتہ بھیج کر مکہ شریف میں ابوجہل، ابولہب اور جملہ دشمنانِ اسلام کو ہلاک کردیتے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت نہ کرنی پڑتی لیکن اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ہجرت کا حکم دے کر وطن کا بت گرادیا اور صحابہ کرام کے قلوب کو وطن کی معبودیت سے پاک کردیا اور قیامت تک کے لیے تعلیم دے دی کہ اگر میری محبت میں وطن بھی چھوڑنا پڑے تو دریغ نہ کرنا۔ جہاں تمہیں تمہارا مولیٰ ملے وہی تمہارا وطن ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ گفت معشوقے بعاشق اے فتیٰ تو بہ غربت دیدۂ بس شہرہا ایک معشوق نے اپنے عاشق سے پوچھا کہ تو نے پردیس میں بہت سے شہر دیکھے ہیں ؎ پس کدا می شہر زاں ہا خوشتر است گفت آں شہرے کہ دروے دلبر است پس کون سا شہر تجھے سب سے اچھا معلوم ہوا؟ کہا کہ وہ شہر سب سے اچھا ہے جہاں میرا محبوب رہتا ہے، جو شہر میرے محبوب کو پیارا لگتا ہے وہی مجھے بھی پیارا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو فرض فرماکر وطنیت کے بت کو پاش پاش کردیا کہ اسلام میں وطن کوئی چیز نہیں ہے، اصل چیز میری رضا ہے، جس زمین پر میں راضی ہوں وہی تمہارا وطن ہے اور ہجرت سے یہ بھی ظاہر فرمادیا کہ اسلام کھاتہ بہی یا ناپ تول کا کوئی کمپیوٹرائزڈ مذہب نہیں ہے کہ کعبہ شریف میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ اور مسجدِ نبوی میں پچاس ہزار ہے تو ہم کیوں ہجرت کریں؟ نہیں! میری رضا کے سامنے ثواب کیا چیز ہے؟ مسلمان میری رضا پر فدا ہوتے ہیں، کعبہ میں راضی ہوں تو کعبہ میں رہو اور عرفات کے جنگل میں بھیج دوں تو وہاں رہو اور مدینہ شریف میں ہجرت کا حکم دے دیا تو وہاں رہو۔ اسلام نام ہے اللہ کی مرضی پر فدا ہونے کا، نہ کہ ثواب کے ناپ تول اور کھاتہ بہی کا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر ایک علم اللہ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا کہ ہجرت کی فرضیت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی اہمیت بھی ظاہر ہوگئی کہ میرا رسول کعبہ سے بہترہے۔ فرض حج تو کعبہ ہی