آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
مت کہو، عضوِ مخصوص کہو ورنہ پھر میرؔ صاحب کی خصوصیت کیا ہوئی، یہ مخصوص احباب میں سے ہیں، ان کے لیے دعا کرو،یہ میرے سارے مضامین لکھتے ہیں، ان کو چھاپتے ہیں، اﷲ تعالیٰ ان کو صحت دے، عمر میں برکت دے، اخلاص دے اور جمنے کی توفیق دے، ہمارا سارا مال کاغذ پر آجائے اور ہمارے دلوں میں بھی آجائے، اﷲ ہم سب کو اﷲ والا بنا دے، اے اﷲ! آپ کا نام بہت بڑا نام ہے، سب لوگ کہو یا اﷲ آپ کا نام بہت بڑا نام ہے، جتنا بڑا آپ کا نام ہے ہم سب پر، ہماری اولاد پر، ہمارے احبابِ حاضرین وغائبین پر، امتِ مسلمہ پر اتنا ہی رحم اور مہربانی فرما دیجیے،آمین۔احکامِ الٰہیہ عین رحمتِ الٰہیہ ہیں میراث کا مسئلہ ہے کہ لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ ہے۔ یورپ والے کافر اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام کا یہ حکم ظلم ہے کہ میراث میں لڑکے کو دو اور لڑکی کو ایک حصہ دیتے ہیں، اس کی سب تفصیل میری کتاب ’’مواہبِ ربانیہ‘‘ میں ہے۔ اور یہ مضمون اﷲ تعالیٰ کی طرف سے قلب کو عطا ہوا کہ یہ ظلم نہیں ہے عین رحمت ہے، کیوں کہ لڑکوں پر دو ذمہ داریاں ہوتی ہیں ایک اپنی روٹی، کپڑا اور مکان اور دوسری بیوی کی روٹی، کپڑا اور مکان، اور لڑکیوں کا روٹی، کپڑا اور مکان شوہر کے ذمہ ہے۔ لیکن عورت کے پاس بھی تھوڑے بہت پیسے ہونے چاہئیں تاکہ اگر اس کے ماں باپ، بہن بھائی یا کوئی اور خاندان والا ملنے آجائے تو اس کی خاطر تواضع کردے، اپنے ذاتی پیسے سے مرنڈا وغیرہ پلادے اور اسے شوہر سے پیسہ مانگتے ہوئے شرم نہ آئے، بعضے شوہر بخیل ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ جب دیکھو تمہارے خاندان والے یہاں پڑے رہتے ہیں اور تم ہماری محنت کی کمائی خرچ کرتی رہتی ہو تو اﷲ نے میراث میں عورت کا بھی ایک حصہ رکھ دیا تاکہ اپنے اعزا و اقرباء کو اپنے پیسوں سے کھلائے پلائے، لیکن جس پر ڈبل فکر تھی اس کو ڈبل حصہ دیا اور لڑکی کا ایک حصہ رکھ دیا، یہ اﷲ تعالیٰ کا عین عدل ہے۔ اس جواب پر یورپ والے خاموش ہوجاتے ہیں۔ ایک عیسائی نے مجھ سے پوچھا کہ اسلام میں زِنا کیوں حرام ہے؟ اب اس کے لیے کافروں کو قرآن سے تو دلائل نہیں دے سکتے، کیوں کہ قرآن پر ان کا ایمان ہی نہیں ہے اس لیے وہ قرآنِ پاک سے دلائل نہیں مانتے، لہٰذا میں نے ایک جملہ کہہ دیا جس پر وہ خاموش اور ٹھنڈا ہوگیا، خالی خاموش نہیں ہوا ٹھنڈا بھی ہوگیا۔ میں نے کہا کہ زِنا اس لیے حرام ہے کہ اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ میرے بندے حرامی پیدا ہوں۔ کہیے جناب یہ کیسا جواب ہے! بس خاموش ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کسی انگریز سے پوچھو کہ تیرے باپ کا کیا نام ہے تو وہ بہت زور سے چلّا کر کہتا ہے