آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کتنا ہی قابل ہو، لیکن اس کو اپنے مربّی سے جو مزہ اور فیض ملتا ہے اور جو نفع ہوتا ہے اس کا کوئی مثل نہیں ہے ؎ شمس و قمر کی روشنی دہر میں ہے ہوا کرے مجھ کو تو تم پسند ہو اپنی نظر کو کیا کروں شیخ کے ساتھ ایسی محبت ہونی چاہیے کہ منڈیلا بھی آکر یہاں بیٹھ جائے،تو مریدوں پر فرض ہے کہ اپنے مربّی کو دیکھتے رہیں، بادشاہوں کو بھی مت دیکھو۔اوریہ محبت سکھائی مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے۔ فرمایا کہ ایک مجلس میں سارے عالم کے اولیا ء اﷲ ہوں یہاں تک کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، بایزید بسطامی رحمۃاللہ علیہ، بابا فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بھی ہوں، اور میرے پیر حاجی امداد اﷲ سامنے بیٹھے ہوں تومیں اپنے پیر ہی کو دیکھوں گا، کسی اور کو دیکھو ں گا بھی نہیں اور یہ کہوں گا کہ حضرت میں تو آپ ہی کو دیکھوں گا، آپ اپنے بڑوں کودیکھیں وہ آپ کاکام ہے، ہمارے تو سب کچھ آپ ہی ہیں۔ اس کی ایک عجیب وغریب مثال میرے قلب میں اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ ایک ہزار نانی بیٹھی ہوں تو بچہ اماں ہی کو دیکھے گا اور اپنی اماں سے کہے گا کہ آپ اپنی اماں کا خیال کیجیے، ہم نے تو آپ ہی کا دودھ پیا ہے، ہم ان نانیوں کو نہیں دیکھیں گے، ہم تو آپ ہی کو دیکھیں گے۔ تو شیخ کا ادب بتا رہا ہوں کہ اگر سارے عالم کے اولیاء اﷲ جمع ہوجائیں تو اپنے شیخ ہی کی طرف نظر رکھو اور یہ سبق قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے دیا، اور یہ روایت کسی معمولی شخصیت کی نہیں ہے کہ شیخ کی جتنی عظمت ہوگی اتنا ہی اﷲ کا فضلِ رحمانی اس پر نازل ہوگا، یہ حاجی صاحب نے ضیاء القلوب میں لکھا ہے، میں نے خود پڑھا قَدْ رَأَیْتُ بِعَیْنَیَّ ھٰذَا میں نے یہ مضمون خود پڑھا ہے کہ جس کو اپنے شیخ سے جتنا زیادہ نیک گمان ہوگا اتنا ہی زیادہ اس پر اﷲ کا فضل نازل ہوگا۔ ایک زمانہ تھا کہ جب میں آسمان دیکھتا تھا تو مجھے شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ آسمان سے اُترتے نظر آتے تھے، وہی لنگی باندھے، کرتے کے بٹن کھلے، گریباں چاک اور بال بکھرے ہوئے۔ کیا کریں محبت مجبور کرتی ہے۔فنائیتِ حسنِ مجازی مولانا اب جلدی شروع کرو، درمیان میں اتنی نثر کافی ہے، اس کا نام ہے الدرر المنثورۃیعنی بکھرے ہوئے موتی۔ اب مولانا منصور کی زبان سے منظوم موتی سنو۔ ( پھر مولانا نے یہ شعر پڑھا) ؎