آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا ہم ہی تھک گئے داستاں کہتے کہتےصحبت یافتہ عالم ذلیل و رسوا نہیں ہوسکتا اﷲ والوں کی جوتیاں اٹھاؤ پھر دیکھو مولویو! تمہارے علم میں اﷲ کیا خوشبو دیتا ہے۔ مدارس سے عالمِ منزل بن کر نکلنے والوں کو اسی لیے کوئی نہیں پوچھتا کہ عالمِ منزل ہے اور بالغِ منزل نہیں ہے۔ آپ روئے زمین پر ایک عالم کو ثابت نہیں کرسکتے جس نے ایک معتدبہ زمانہ اولیاء اﷲ کی صحبت اٹھائی ہو اور وہ ذلیل یا رُسوا ہوا ہو، مقبول بین الخلق نہ ہو۔ یہ جو آج کل کا طریقہ ہے کہ مولوی لوگ قربانی کی کھالوں کے لیے دروازے دروازے جاتے ہیں یہ وہی عالم کر سکتا ہے جس نے کسی اﷲ والے کی جوتیاں نہیں اٹھائی ہوں، جو لوگ صاحبِ باطن ہیں اور باطن میں اﷲ کو رکھتے ہیں ان کو اﷲ غیرت بھی دیتا ہے، وہ کبھی کسی کے پاس نہیں جاتے۔ میرے بیٹے مولانا مظہر نے مولانا ابرار الحق صاحب کی خدمت کی، عشاء کے بعد سر میں تیل لگایا تو فجر ہوگئی تو حضرت کو بھی حیرت ہوئی، لیکن اس خدمت کا یہ انعام ملا کہ آج وہ مجازِ بیعت ہیں اور ایک بہت بڑا مدرسہ چلارہے ہیں اور علماء ان سے بیعت ہورہے ہیں۔ میں تو آپ ہی لوگوں کو چلا رہا ہوں، میں اب مدرسہ چلانے کے قابل نہیں ہوں بس گروہِ عاشقاں پر عاشق ہوں، اﷲ کے عاشقوں پر عاشق ہوں، سڑک ہو، دریا کا کنارہ ہو، جنگل ہو میری یہی خانقاہ ہے ۔بولو اس وقت یہ زمین اور یہ سڑک خانقاہ ہے یا نہیں؟خانقاہ کسے کہتے ہیں؟ خانقاہ فارسی زبان کا لفظ ہے، اس کے معنیٰ غیاث اللغات میں لکھے ہیں ’’جائے بودنِ دُرویشاں‘‘ جہاںچند اﷲ والے دُرویش بیٹھ جائیں بس وہی خانقاہ ہے۔ خانقاہ محتاجِ چھت و عمارت و دہلیز نہیں ہے، خانقاہ نامہے ’’جائے بودنِ دُرویشاں‘‘ دُرویشوں کی رہنے کی جگہ جہاں اﷲ والے بیٹھ جائیں۔ اب آپ لوگ یہاں بیٹھگئے، بس یہی خانقاہ ہے۔ تو میں بتا رہا تھا کہ ایک شخص نے قربانی کے زمانے میں میرے بیٹے مولانا مظہر کو ٹیلی فون کیا کہ گائے کی کھال رکھی ہوئی ہے، کوئی آدمی بھیج دیجیے، میں آپ کے مدرسہ میں دینا چاہتا ہوں۔ مولانا مظہر میاں نے ان کو جواب دیا کہ آپ آدمی کیوں مانگتے ہیں کیا آپ آدمی نہیں ہیں؟ آہ! بعض وقت ایسی بات ان کے منہ