آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کے مطابق اﷲ سے ڈرتے ہیں یا نہیں؟ اس طاقت کو استعمال کرنے میں اپنی خیانت اور جرم کا احساس رہتا ہے، بس ان کا یہی ایک غم ہے۔غمِ اولیاء اللہ کی ناراضگی سے بچنے کا غم ہے اس کی شرح اس لیے کردی، کیوں کہ بعض لوگ رات دن ساتھ ہیں، وہ دل میں کہتے ہوں گے کہ اس کو کون سا غم ہے؟ اس کا دسترخوان تو اتنا وسیع رہتا ہے، یہ تو سموسہ اڑا رہا ہے، کوفتے اڑا رہا ہے، اس کو کون سی کوفت ہے؟ تو اس لیے غم کی شرح کردی کہ ہر وقت یہ فکر رہے کہ اﷲ تعالیٰ ہم سے ایک لمحہ ناراض نہ ہو، نفس ظالم سے ہر وقت ہوشیار رہو، آنکھوں کی چوریوں سے ہوشیار رہو، ایک سانس بھی جو اﷲ کو ناراض کرکے حرام خوشی درآمد کرتا ہے یہ ظالم گدھا اور کتے سے بدتر ہے، کیوں کہ کتے اور گدھے مکلف نہیں ہیں، ہم مکلف ہیں، اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکومت، اپنی شریعت ہم پر نافذ کی ہے، جانوروں کو آزادی دی ہے کہ تم چاہے جیسے رہو تمہارا کوئی حساب کتاب نہیں ہے، اگر بکری ہے تو اس کو کاٹ کے کھالو کوئی گناہ نہیں ہے، اس کو بسم اللہ پڑھ کے ذبح کردو۔ بعض کافروں نے کہا کہ صاحب مسلمان بڑے سخت دل ہیں، جانور ذبح کرتے ہیں، تو حکیم الامت فرماتے ہیں کہ بسم اﷲ پڑھنے سے جانور پر ایک نشہ اور سکر کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، یہ مت سمجھنا کہ اس کو اذیت ہوتی ہے، وہ تو خوش ہوتے ہیں کہ ایک مسلمان کے پیٹ میں جائیں گے۔ تو غم کی شرح سمجھ گئے کہ بعض لوگ کہیں گے خاص کر جو رات دن ساتھ ہیں کہ صاحب دسترخوان پر بریانی اور کوفتہ اور سموسہ کھایا، ان کو کون سا غم لگا ہے۔ میر صاحب نے خود بتایا کہ جب وہ آٹھ سال کے تھے تو ایک شعر پڑھ رہے تھے ؎ الٰہی پھیر دے مشکل کے دن اب بہت دن ہوگئے غم سہتے سہتے انہوں نے کہا کہ میری اماں نے ایک طمانچہ مارا کہ ڈپٹی کلکٹر کابیٹا ہے، پلاؤ بریانی اڑا رہا ہے، آٹھ سال کی عمر میں کون سا غم لگا ہوا ہے؟ ایک دن میر صاحب میری خانقاہ میں بھی یہ شعر پڑھ رہے تھے، تو بمبئی کے مولانا حسین صاحب گجراتی بڑے نیک تہجد گزار اﷲ والے ہیں، انہوں نے اپنا منہ میر صاحب کے قریب کیا اور پوچھا کہ آٹھ سال کی عمر میں وہ کیا غم تھا؟ ان کو بڑا تعجب ہوا کہ آٹھ سال کی عمر میں کیا غم ہوسکتا ہے، لہٰذا یہ شرح کردی کہ اس غم سے مراد اﷲ کی محبت کا غم ہے۔ اﷲ کو ہر وقت راضی کرنے کا غم اور ان کی ناراضگی سے بچنے کا غم، کہ جو ہمارا مالک، ہمارا پالنے والا، ہمارا پیدا کرنے والا ہے ہم ان کو ناراض کرکے حرام خوشیاں