آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
آپ کو ناخوش کرنا میرے قلب پر گراں ہے، تو جنت کو درجۂ ثانوی کردیا اور جہنم کو بھی درجۂ ثانوی کردیا اور اﷲ کی رضا کو جنت سے مقدم کردیا اور اﷲ کی ناراضگی کو دوزخ سے مقدم کردیا، تو گویا اس نے یہ جہاں بھی دے دیا اور جہاں آخرت بھی دے دیا، اس نے دونوں جہاں اﷲ پر فدا کردیےاَلَّذِیْ یَبْذُلُ الْکَوْنَیْنِ کونین کو اﷲ پر فدا کرنے کی شرح آپ نے سن لی۔ یہ شرح شاید ہی کہیں کتابوں میں پاؤ گے الّا ماشاء اﷲ۔ اختر کو جہاں سے مل رہا ہے اﷲ کسی اور کو بھی دے دے تو الگ بات ہے۔صدّیق کی ایک الہامی تعریف اب چوتھی تعریف اختر کی سنیے، کیوں کہ جس مبدأ فیاض سے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کو اﷲ نے عطا فرمایا تو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تو نہیں ہیں مگر مبدأ فیّاض، اﷲ تا قیامت قائم و دائم ہے، اس اﷲ نے اختر کے دل میں صدّیق کی چوتھی تعریف ڈالی کہ صدیق اﷲ کا وہ ولی ہے جو اپنی زندگی کی ہرسانس کو اﷲ کی رضا پر فدا کرتا ہے اور ایک سانس، ایک لمحہ، ایک دقیقہ، ایک سیکنڈ بھی اﷲ کو ناراض کرکے حرام لذت کو اپنے نفس اور اپنے قلب میں امپورٹ، استیراد اور درآمد نہیں کرتا۔ اگر کبھی صدورِ خطا ہوجائے بربنائے بشریت تو رو رو کے سجدہ گاہ کو ترکردے گا اور اس قدر گریہ و زاری سے، اشکباری سے، آہ وزاری سے استغفار کرے گا کہ ملائکہ کو بھی رونا آجائے گا کہ یا اﷲ یہ کیسی قوم ہے کہ جنہوں نے آپ کو دیکھا بھی نہیں ہے اور آہ و زاری کی یہ حالت ہے کہ ان کی سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہے۔مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ چوں بگریم خلقہا گریاں شود چوں بنالم چرخہا نالاں شود جب میں روتا ہوں تو ایک مخلوق میرے ساتھ روتی ہے، جب میں نالہ کرتا ہوں تو آسمان بھی میرے ساتھ آہ ونالہ کرنے میں شریک ہوتا ہے، اور پھر فرمایا ؎ ہر کجا بینی تو خوں بر خاکہا پس یقیں می داں کہ آں از چشمِ ما اے دنیا والو! جہاں بھی دیکھنا کہ کسی مٹی پر، کہیں خاک پر خون پڑا ہوا ہے، تو یقین کرلینا کہ یہاں جلال الدین ہی رویا ہوگا۔ بس اس کے بعد جب میں اس مقام پر پہنچتا ہوں تو لغت قاصر ہوجاتی ہے، لغت محدود ہے حق تعالیٰ