آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
کعبہ شریف کے ارد گرد سبزہ نہ ہونے کی حکمت اور ایک بات اچانک دل میں آگئی جو آپ شاید اس فقیر ہی سے سنیں گے، شاید لگا رہا ہوں کہ دعویٰ نہ ہو۔ دنیا کے جتنے درخت ہیں شام کو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں جو انسان کے لیے نہایت مضر ہے، اور صبح کی ہوا یعنی آکسیجن جو درختوں سے نکلتی ہے نہایت مفید ہے۔ اسی لیے بزرگوں نے فرمایا کہ صبح کی ہوا لاکھ روپے کی دوا۔ تو میں سوچا کرتا تھا کہ کعبہ شریف کے آس پاس کشمیر جیسے خوبصورت مناظر اور درختوں کی قطاریں نہیں ہیں، منیٰ، مزدلفہ، عرفات میں اور کعبہ شریف کے آس پاس ایسے چٹیل پہاڑ ہیں کہ گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتا۔ ہر آدمی اپنا گھر اچھے پڑوس میں، درختوں میں، باغوں میں بناتا ہے تو اﷲ میاں کے گھر کے جغرافیہ کا کیا راز ہے؟ پھر اﷲ تعالیٰ ہی نے میرے قلب کو جواب عطا فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں سے ماں باپ سے زیادہ پیار کرتا ہے، اگر وہ درخت پیدا کرتا تو شام کو کعبے شریف کی طرف درخت کا ربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے تو جتنے حاجی، عمرہ کرنے والے یا جو میرے عاشقین ہیں وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خوف سے میرا گھر چھوڑ کر چلے جاتے، بس عصر تک طواف کرتے اور جب دیکھتے کہ مغرب کے وقت یہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کریں گے تو اپنی صحت کی حفاظت کے لیے اﷲ کے عاشقین کعبہ چھوڑ کر بھاگ جاتے، تو اﷲ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ یہاں کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا نہ ہو تاکہ میرے عاشقین ہر وقت مجھ سے چپٹے رہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ تشنگاں گر آب جویند از جہاں آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں اگر دنیا میں پیاسے پانی کو تلاش کرتے ہیں تو پانی بھی اپنے پیاسوں کو تلاش کرتا ہے۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے عاشقوں کے لیے ایسا جغرافیہ بنایاکہ چوبیس گھنٹے لپٹے رہو، یہاں کوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ نہیں، آکسیجن ہی آکسیجن ہے اور ایسی مقوی آکسیجن کہ جب شام کے بڑے بڑے درختوں اور باغات والے کافر لڑنے کے لیے آئے تو مکہ شریف کے آکسیجن والے جیت گئے۔ اب اگر منیٰ، مزدلفہ، عرفات میں حج کے زمانے میں درخت ہوتے اور جہاں درخت ہوتے ہیں وہاں نمی ہوتی ہے اور نمی میں جراثیم کی نشوونما زیادہ ہوتی ہے، تو جب لاکھوں حاجیوں کی قربانی کی بکریوں کی انتڑیاں گھاس پر ڈال دی جاتیں تو سٹر جاتیں اور بیماریاں پھیل جاتیں، لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان پہاڑوں کو چٹیل رکھا کہ سورج کی شعاؤں سے پہاڑ اتنے گرم ہوجاتے ہیں کہ