آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
قوی الشہوت قوی النور ہوتا ہے اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کی دوستی کی بنیاد ہے۔ اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ اورجتنی بنیاد مضبوط ہوتی ہے عمارت اتنی ہی مضبوط ہوتی ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ بہت بڑے درجہ کا ولی بنانا چاہتے ہیں اس کے تقویٰ کی بنیاد بہت مضبوط بناتے ہیں اور تقویٰ کی بنیاد کے لیےکَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی کی ضرورت ہے، لہٰذا اس کے اندر ھَوٰی اور بُری خواہشات کے تقاضے بھی بہت زیادہ رکھتے ہیں تاکہ جب اس کو شدید تقاضا ہو تو اس تقاضے کو روکنے میںغم بھی شدید پیدا ہو اورجتنا شدید غم ہوگا روح میں اتنا ہی قوی نور پیدا ہوگا ۔ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں گناہوں سے بچنے میں نفس میں جتنا شدید غم آتا ہے روح میں اتنا ہی قوی نور پیدا ہوجاتا ہے۔ جس کی ھَوٰی یعنی بُری خواہش کا تقاضا جتنا قوی ہوگا اتنا ہی اس کا کَفُّ النَّفْسِ زیادہ ہوگا اور کَفُّ النَّفْسِ میں اس کو زیادہ تکلیف ہوگی، اورہر شخص کے مجاہدہ اور تکلیف کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کے درجات میں فرق کرتے ہیں مثلاً ایک شخص ایک کلو غم اُٹھاتا ہے اور دوسرا ایک ہزار کلو غم اُٹھاتا ہے ، دونوں کے درجات مساوی نہیں ہوسکتے۔ کَفُّ النَّفْسِتقویٰ کی بنیاد ہے، جس نے جتنا زیادہ غم اُٹھایا اتنی ہی اس کی تقویٰ کی بنیاد مضبوط ہوئی اور اس کی ولایتِ عُلیا کی عمارت اتنی ہی عظیم الشان تعمیر ہوتی ہے۔ اس لیے تجربہ ہے کہ جن کا مزاج عاشقانہ تھا ان کو نفس کو روکنے میں تکلیف بھی شدیدہوئی تو اللہ نے ان کے قلب کو اپنی محبت کا درد عظیم الشان عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جن کو اپنے دین کی خدمت کے لیے منتخب کرتا ہے ان کو زیادہ مجاہدہ سے گزارتا ہے، تاکہ ان کے جلے بھنے دل کی خوشبو سے دوسرے بندے اللہ کی خوشبو پاکر اللہ پر فدا ہوجائیں۔ ایسے بندے صرف صاحبِ خوشبو نہیں ہوتے ناشرِ خوشبو بھی ہوتے ہیں،ان کواللہ صرف ولی نہیں بناتا ولی ساز بھی بناتا ہے، لہٰذا گناہوں کے تقاضوں کی شدت سے ہرگز گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ سمجھنا بنیادی غلطی ہے کہ تقاضائے معصیت سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ اس جملہ کا صغریٰ کبریٰ سب غلط ہے۔ اللہ جب ناراض ہوتا ہے کہ تقاضائے معصیت پر عمل کرلے۔ خوب سمجھ لو کہ تقاضا ہوناکچھ گناہ نہیں، تقاضے پر عمل کرنا گناہ ہے۔ بس اس کی فکر کریں کہ بُرے تقاضوں پر، بُری خواہش پر عمل نہ ہو۔ جس کے دل میں زیادہ تقاضے ہوں تو سمجھ لو کہ تقویٰ کی بھٹی روشن کرنے کے لیے اس کو ایندھن زیادہ دیا گیا ہے۔ ان تقاضوں کو اللہ کے خوف کی آگ میں جلا دو یعنی عمل نہ کرو تو تقویٰ کاعظیم الشان نور پیدا ہوجائے گا، اس لیے تقاضوں کی شدت سے کبھی پریشان نہ ہوں۔ جس کو اللہ تعالیٰ