آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
خونِ تمنا اور مقامِ ابراہیم ابنِ ادہم انسان کی بہت سی آرزوئیں ایسی ہیں کہ اگر سلطنتِ بلخ موجود ہو تو وہ اپنی خواہش کی تکمیل اور اس حسین کی تحصیل سلطنتِ بلخ دے کر کرے، لیکن جس نے اﷲ کے خوف سے متبادلِ سلطنتِ بلخ یعنی اپنے دل کی خواہش کو اﷲ پر فدا کردیا، اختر کو امید ہے کہ وہ میدانِ محشر میں حضرت سلطان ابراہیم ابنِ ادہم رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ کھڑا ہوگا ان شاء اﷲ۔ حفاظتِ نظر معمولی نعمت نہیں ہے، یہ بہت اہم بات بتا رہا ہوں، شاید پوری کائنات میں اختر ہی سے یہ مضمون سنو گے، شاید دعوے کی شکست کے لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر کوئی صورت زندگی میں ایسی نظر آجائے کہ قلب میں تمنا پیدا ہوجائے کہ کاش! سلطنتِ بلخ ہوتی تو میں اس معشوق پر یا معشوقہ پر فدا کرکے اپنی خواہش کی تکمیل کرکے اس کی تحصیل کرتا، اس کے ضلع میں جاکراس کی تحصیل کرلیتا اور فارغ التحصیل ہوجاتا، تو اﷲ کے لیے اس حسین سے نظر بچانے پر ان شاء اﷲ اس کو اﷲ کے راستے میں سلطنتِ بلخ چھوڑنے کا ثواب ملے گا۔ایک لطیفہ فارغ التحصیل پر یاد آیا کہ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک جاہل سے پوچھاکہ آپ کہاں سے فارغ التحصیل ہیں؟ تو ا س نے کہا میری تحصیل ہاپڑ ہے۔ ہاپڑ میرٹھ میں ایک تحصیل ہے، وہاں کے پاپڑ بہت مشہور ہیں۔ تو یہ مضمون یاد رہے کہ دنیا میں مسکین بھی مقامِ سلطانیت پاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم ابن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ کا مقام ایک مسکین ملاّ بھی حاصل کرسکتا ہے اگرچہ اس کے پاس سلطنتِ بلخ نہیں ہے، لیکن اپنی ایسی خواہشات کہ جن کی تکمیل کے لیے وہ سلطنتِ بلخ دے کر اس کی تحصیل کرتا، مگر متبادل سلطنت بلخ یعنی حسین اور نمکین سے نظربچالی اور اسے نہیں دیکھا، آہ نکل گئی،یہاں تک کہ بخار کو منظور کرلیا مگر اپنے کو خار چبھنے سے بچا لیا، تو اختر کو امید ہے کہ ان شاء اﷲ یہ بھی قیامت کے دن سلطان ابراہیم ابنِ ادہم رحمۃاﷲ علیہ کے ساتھ ہوگا اپنی فداکاری اور وفاداری کی برکت سے، اور لوگوں کو تعجب ہوگا کہ یہ تو مسکین ملاّ تھا لیکن ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کاجواب امید ہے ارحم الراحمین دے گا کہ اگرچہ یہ ملاّ مسکین تھا لیکن اس نے اپنی نظر کی حفاظت کی، مزاجِ عاشقانہ ہونے کے باوجود مزاجِ رومانٹک کے بحرِ اٹلانٹک میں غرق نہیں ہوا اور اپنی اسٹک لے کر بھاگا، اس نے