آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںوَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ؎ ہم انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ ۱۴؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق۷؍اکتوبر ۱۹۹۸ ء،بروز بدھ دس بجے صبح مجلس برمکان مفتی حسین بھیات صاحبخدمتِ دین کا شرف ارشاد فرمایا کہ اگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے کی ترغیب نہ دیتے اور صحابہ اپنا مال نہ دیتے تو یہ کہنا کہ پھر دین کا کام کیسے چلتا؟ سخت بے ادبی کاعنوان ہے، کیوں کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ نعوذ باللہ دین افرادِ اُمت کا محتاج ہے، لہٰذا ادب کا عنوان یہ ہے اور یہی حقیقت ہے کہ اگرحضور صلی اللہ علیہ وسلم ترغیب نہ دیتے توصحابہ کو دین کی خدمت کا اور دین پرجان ومال نثارکرنے کاشرف کیسے حاصل ہوتا؟اورصدیق اکبراپناسارامال لے کرکیسے حاضر ہوتے؟ اور ان کی تاریخ تاریخِ وفاداری و جاں نثاری کیسے بنتی؟ اوریہ شرف ان کو کیسے ملتاکہ جبرئیل علیہ السلام ان کے پاس اللہ کا سلام لے کرنازل ہوئے اورفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایاہے کہ سارا مال خرچ کرکے صدیق کوکچھ غم تونہیں ہے، تو صدیق اکبر خوشی سے جھوم گئے اوروجدمیں فرمایا اَنَاعَنْ رَّبِّیْ رَاضٍ،اَنَا عَنْ رَّبِّیْ رَاضٍ۔؎ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کویہ شرف کیسے حاصل ہوتاکہ ان کے دنانیرودراہم کوحضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک میں لے کربجاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! تیرا نبی عثمان سے خوش ہوگیا تو بھی عثمان سے خوش ہوجا۔معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ سے دین پر مال فداکرانا صحابہ کو دین کی خدمت کا شرف عطا فرمانا تھا،ورنہ دین کسی کا محتاج نہیں۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ اگر صحابہ مال نہ دیتے تو دین کا کام کیسے ہوتا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو اللہ تخلیقِ زر پر قادر ہے وہ عطائےزر پر قادرنہیں؟جو سونے کی کانوں میں کروڑوں کروڑوں ٹن سونا پیداکرسکتاہے ------------------------------