آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
انہوں نے فرمایا کہ بتانا پڑے گا ورنہ ابھی ڈنڈے لگاتا ہوں، اس نے کہا میرا نام ابلیس ہے، تو فرمایا ظالم تو تو گناہ کی طرف لے جاتا ہے مجھے تہجد کے لیے کیوں اٹھایا؟ آج نیک کام کیسے کرلیا؟ اس نے کہا کہ حضور پہلے میں نیک کام ہی کیا کرتا تھا، پرانی عادت کبھی کبھی عود کرآتی ہے، کہا چکّر باز مکاّر، اس میں تیری کوئی نہ کوئی بدمعاشی موجود ہے، بظاہر تو نیک کام کررہا ہے لیکن تیری اس نیکی میں بھی کوئی بدی، کوئی بُرائی پوشیدہ ہوگی تجھے بتانا پڑے گا، تو اس نے کہا کہ اچھا جب آپ اتنا مجبور کرتے ہیں تو بتاتا ہوں کہ اس نیکی میں میری بُرائی کی نیت ہے، کیوں کہ کل میں نے آپ کی تہجد قضا کرائی تو آپ نے تہجد کی قضا تو ادا کی، مگر اﷲ سے ندامت کے ساتھ اتنا زیادہ روئے کہ میں نے آپ کا مقام دیکھا کہ آپ انتہائی عروج پر پہنچ گئے ہیں، تو میں نے آج سوچا کہ آپ زیادہ اونچے نہ جائیں تھوڑا نیچے رہیں۔شیطان کا ایک وار ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ بعض وقت شیطان بڑی نیکی سے چھڑا کر چھوٹی نیکی میں لگا دیتا ہے، جیسے کوئی اﷲ والا آیا ہے یا بزرگ آیا ہے یا شیخ آیا ہے اب وہ اپنی الگ عبادت اور نفلوں میں لگا رہتا ہے کہ تم یہیں آہ و زاری کرو، اب وہ مسجد میں الگ کہیں کونے میں تلاوت کررہے ہیں اور وہاں بیان ہورہاہے، یہ جہالت کی بات ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ دین کے ایک مسئلہ کے سیکھ لینے کا ثواب سو رکعات کے برابر ہے اور ایک مضمون سیکھ لینے کا ثواب ایک ہزار رکعات کے برابر ہے۔صحبتِ اہل اللہ محافظِ ایمان ہے مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ شاعر نے کہا ہے ؎ یک زمانہ صحبتے با اولیا بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا تو کیا واقعی اﷲ والوں کے پاس بیٹھنا سو برس کی اخلاص کی عبادت سے افضل ہے؟ حکیم الامت نے فرمایا کہ آپ کو تعجب کیوں ہورہا ہے؟ اﷲ والوں کے پاس تھوڑی دیر بیٹھنا سو سال کی عبادت سے بہتر ہے، یہ شاعر نے کم بیان کیا ہے ؎ بہتر از لکھ سالہ طاعتِ بے ریا