آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کم نہیں ہوتی اور شیرنی کی داڑھی نہیں ہوتی کیوں کہ شیرنی کے گالوں کا چما لینا پڑتا ہے۔ اچھا پہلے ہم یہ سمجھتے تھے کہ شاید شیر اپنی شیرنی سے ایسا نہیں ڈرتا ہوگا جیسے بعض لوگ اپنی بیوی سے ڈرتے ہیں، لیکن آپ ہی کے جنگل میں جو تین سو ساٹھ کلومیٹر کا ہے میں اپنا آنکھوں دیکھا حال بتا رہا ہوں کہ ایک شیرنی او رشیر دونوں بیٹھے تھے، ہماری موٹر ان کے بالکل قریب کھڑی تھی، شیر اور شیرنی میں پانچ فٹ کا فاصلہ رہا ہوگا، اتنے میں شیرنی اٹھی اور دس فٹ کے فاصلے پر جاکر بیٹھ گئی، شیر صاحب دست بستہپا گرفتہ باادب باملاحظہ ہوشیار پیچھے پیچھے چلے جارہے ہیں اور وہیں جاکر بیٹھے جہاں وہ شیرنی بیٹھی تھی، تو میں نے کہا کہ اﷲ اکبر!یہ بیوی بھی عجیب چیز ہے کہ شیر ظالم بھی غلام بن گیا۔بیوی سے محبت کرنا سنت ہے لیکن بیوی سے محبت کرنا یہ غلامی نہیں ہے یہ سنت ہے اور اﷲ تعالیٰ کی سفارش ہے عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ اے ایمان والو! اپنی بیویوں کو پیار سے رکھو، ان کی خطاؤں کو معاف کرو۔ ایک عورت نے کھانے میں نمک تیز کردیا، بھول کر ڈبل نمک ڈال دیا، کھا نا ز ہر ہوگیا، مگر اس کے شوہر نے معاف کردیا کہ اگر میری بیٹی سے نمک ایسے ہی ڈبل ہوجاتا تو میں اپنی بیٹی کے لیے داماد سے جوتا اور گالی نہ چاہتا، یہ چاہتا کہ داماد میری بیٹی کو معاف کردے، تو میری بیوی بھی کسی کی بیٹی ہے اور اﷲ کی بندی ہے۔ پھر اس نے اﷲ سے سودا کیا کہ میں آپ کی بندی کو معاف کرتا ہوں، بس قیامت کے دن آپ بھی مجھے معاف فرمادیجیے گا۔ جب اس کا انتقال ہوا تو ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ تمہارے ساتھ اﷲ نے کیا معاملہ کیا؟ اس نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے اپنی بیوی کو نمک تیز کرنے پر جو معاف کیا تھا اس کے بدلے میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔ اگر اپنی بیٹیوں کا آرام چاہتے ہو تو اپنی بیویوں کو آرام سے رکھو، جو شخص یہ چاہے کہ میری بیٹیوں کو اچھا داماد ملے اور میری بیٹیاں آرام سے رہیں تو وہ اپنی بیویوں کو آرام سے رکھے، اس کے بدلے میں اﷲ تمہیں اچھا داماد دے گا ان شاء اﷲ تعالیٰ۔ بیوی سے بعض مسٹر زیادہ پیار کرتے ہیں اور مولوی بہت ستاتا ہے، کیوں کہ امامت کرنے کے بعد سب مقتدی اس کا ہاتھ چومتے ہیں اب وہ سوچتا ہے کہ بیوی کو بھی ہاتھ چومنا چاہیے، لیکن بیوی ہاتھ کیوں چومے بھئی؟ بیوی تمہاری مرید تو نہیں ہے رفیقۂ حیات ہے، زندگی کی ساتھی ہے، تمہارا ہاتھ چومنا اس پر فرض نہیں ہے، بلکہ اس کو روٹھنے کا، ناراض ہونے کا حق حاصل ہے۔