آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
با لبِ یارم شکر را چہ خبر با رُخش شمس و قمر را چہ خبر اﷲ کی تجلیات کے سامنے سورج اور چاند کیا بیچتے ہیں اور میرے اﷲ کے نام کی مٹھاس کو یہ ظالم شکر کیا جانے، جو مخلوق ہے اور حادِث ہے اور فانی ہے اور اﷲ کے نام کی لذت و مٹھاس غیر فانی ہے، قدیم ہے اور واجب الوجود ہے، ایک دفعہ جو محبت سے اﷲ کا نام منہ سے نکل گیا تو اس کا نور قیامت تک فنا نہیں ہوگا، یہ نور ہماری روح میں رہے گا۔اللہ سے اللہ کو مانگ لو اسی لیے بتارہا ہوں دوستو! کہ زندگی کا مزہ لوٹ لو، اگر اولیائے صدّیقین کی خطِ انتہا تک پہنچے بغیر مر گئے تو گویا اﷲ کی دوستی میں کمتر درجہ پر مرے، تو کمتر کیوں رہو؟ جب کریم مالک سے پالا پڑا ہے جس سے جو مانگو دیتا ہے اور ہم اُن سے اُن ہی کو مانگ رہے ہیں، ولایتِ صدّیقیت کی مراد کیا ہے کہ اﷲ کو پورا پورا خوش کرلیں، تو جب ہم اﷲ سے اﷲ ہی کو مانگ رہے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کریم ہیں۔ اس کی ایک مثال سن لو۔ ایک بیٹا اپنے باپ سے کہتا ہے کہ مجھے مرسڈیز دے دو، مجھے اپنا پیٹرول پمپ دے دو، غور سے سنیے! وہ کہتا ہے مجھے اپنا فلاں باغ دے دو، فلاں بلڈنگ دے دو، فلاں فیکٹری دے دو اور ایک بیٹا کہتا ہے ابّا ہمیں کچھ نہیں چاہیے، ہمیں آپ چاہئیں، آپ ہم سے خوش ہوجائیے، ہم آپ سے آپ ہی کو مانگتے ہیں، آپ ہم سے خوش ہوجائیے، تو یقین سے کہتا ہوں کہ باپ اس بچے کو زیادہ دے گاجو اس سے یہ کہے گا کہ ہم آپ کی خوشی مانگتے ہیں بہ نسبت اوروں کے، ان کو مطلبی یار قرار دے گا کہ یہ لڑکا عاشقِ مرسڈیز ہے، عاشقِ فیکٹری ہے، عاشقِ جائیداد ہے لیکن عاشقِ پدر نہیں ہے، اور دوسرے بیٹے کو شاباشی دے گا کہ تم باپ کے عاشق ہو، تو اﷲ سے سب مانگنا جائز ہے مگر جائز مانگ کرکے آخر میں اعلیٰ چیز مانگ لو کہ اے اﷲ! میں آپ سے آپ کو مانگتا ہوں تاکہ اﷲ ہم کو وفادار قرار دے کہ میرا بندہ اپنی ضرورت کی وجہ سے جائز حاجتیں بھی مانگتا ہے، مگر آخر میں یہ کہتا ہے کہ اے اﷲ میں آپ سے آپ ہی کو مانگتا ہوں، اگر آپ مل جائیں تو سب کچھ مل گیا ؎ جو تو میراتو سب میرا فلک میرا ز میں میری اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری جس کو اﷲ نہیں ملا وہ ظالم محروم مرا ؎