آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
تو تم کعبہ جاتے ہو، ہر سال حج و عمرہ کرتے ہو مگر جب اپنے ملکوں میں آتے ہو تو پھر سب گناہ کرتے ہو، داڑھی منڈاتے ہو، ایئرہوسٹسوں سے نظر بازی کرتے ہو،تو معلوم ہوا کہ کعبہ تو ملا مگر کعبہ والا نہیں ملا،اگر اﷲ مل جاتا تو اپنے ملکوں میں بھی تم اﷲ والے بن کر رہتے، جان، دل اور مال اپنے مالک پر فدا کرتے۔ تو وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ ؎ اے قوم بہ حج رفتہ کجائید کجائید معشوق ہمیں جا است بیائید بیائید اے وہ قوم جو نفلی حج وعمروں کے لیے جارہے ہو! اتنا زمانہ کسی اﷲ والے کے پاس لگا لو تاکہ پھر اگر ایک ہی حج کروگے تو اس کا نور اتنا قوی ہوگا کہ جب اﷲ والا حج کرتا ہے تو اس کو ایک ہی حج میں کروڑوں حج نظر آتے ہیں، کعبہ پر جب نظر پڑتی ہے تو دل میں مولیٰ ہوتا ہے، گھر کی محبت جب ہی ہوتی ہے جب گھر والے کی محبت ہوتی ہے، لہٰذا پہلے گھر والے کی محبت سیکھو۔ مگر فرض حج مستثنیٰ ہے، اس کے لیے تو وہیں جانا پڑے گا۔ اور دوسرا مصرع عجیب وغریب ہے ؎ معشوق ہمیں جا است بیائید بیائید اے نفلی حج کے لیے جانے والو! کہاں جارہے ہو؟ تمہارا اﷲ میرے پاس ہے، آؤ! اور اﷲ کی محبت سیکھو۔ایک عالم کے ولی اللہ بننے کاواقعہ ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک عالم نفلی حج کو جارہے تھے، ان سے ایک بزرگ نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو؟ کہا کہ حج کرنے۔ کہا کہ جس کے گھر جا رہے ہو اس گھر والے سے بھی جان پہچان ہے؟ بس رونے لگے، رقت طاری ہوگئی کہ اس گھر والے سے تو جان پہچان نہیں ہے، تو فرمایا کہ میرے پاس ایک سال رہو، وہ ان کے پاس ایک سال رہے اور اس زمانے میں شیخ نے ان کو فتویٰ دینے سے، درس وتدریس کرنے سے، وعظ کہنے سے بھی روک دیا، مگر وہ بھی مخلص تھے، سمجھ گئے کہ مجھے میرا شیخ اخلاص اور اﷲ کی محبت دینا چاہتا ہے، اس لیے مخلوق کے اندر نہیں جانے دے رہا ہے تا کہ خالق سے اس کو چپکا دوں، جب خالق دل میں ہوگا پھر مخلوق کی خدمت یہ اخلاص سے کرے گا۔ ملّا علی قاری نے شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ بہت سے علماء بھی ناراض ہو گئے کہ یہ کیسا پیر ہے جو درس و وعظ، پڑھنا لکھنا سب سے منع کررہا ہے؟ لیکن جب ایک سال کے بعد انہوں نے اجازت دی کہ اب سب کام کرسکتے ہو، تو پھر سال بھر خاموشی کے بعد ایک وعظ