آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں یُزَکِّیْھِمْ کی تفسیر کی ہےاَیْ یُطَھِّرُ قُلُوْبَھُمْ وَنُفُوْسَھُمْ وَاَبْدَانَھُم۔قُلُوْبَھُمْ مِّنَ الْاِشْتِغَالِ بِغَیْرِ اللہِ وَ نُفُوْسَھُمْ مِّنَ الْاَخْلَاقِ الرَّذِیْلَۃِ وَاَبْدَانَھُمْ مِّنَ الْاَنْجَاسِ وَ الْاَعْمَالِ الْقَبِیْحَۃِ؎ یعنی نبی پاک کرتا ہے صحابہ کے قلوب کو اور ان کے نفوس کو اور ان کے ابدان کو۔ قلوب کو پاک کرتا ہے غیر اللہ کے اشتغال سے اور نفوس کو پاک کرتا ہے اخلاقِ رذیلہ سے اور اجسام کو پاک کرتا ہے نجاستوں سے اور بُرے اعمال سے۔ یہ تزکیہ کاحاصل ہے۔ اور جب قلب مزکّٰی ہوتا ہے اورجب نفس مزکّٰی ہوتاہے اورجب بدن مزکّٰی ہوتا ہے تو پھر اللہ کے قرب کی خوشبو زیادہ محسوس ہوتی ہے جیسےنہا دھو کر خالص عود لگایا جائے تو عود کی خوشبو محسوس ہوتی ہے اور پسینہ کی بدبو اور غلاظت اورنجاست پرعود لگاؤ تو خوشبو کہاں محسوس ہوگی۔ ایسے ہی جو لوگ گناہ نہیں چھوڑتے،نفس کا تزکیہ نہیں کراتے ان کو اللہ کے قرب کی لذت کا صحیح اِدراک نہیں ہوتا،اورتزکیہ کے بغیراعمال کاقبول ہی خطرہ میں ہے۔ جیسا کہ حدیثِ ریاء میں ہے کہ ایک قاری کو، ایک مجاہد کو اور ایک غنی کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا، کیوں کہ بغیر تزکیہ کے اخلاص نہیں مل سکتا، اسی لیے تزکیہ فرض ہے۔ اور تزکیہ فعل متعدی ہے۔ پس مزکّٰی ہونے کے لیے ایک مزکِّی کی ضرورت ہے، لہٰذا تزکیہ کے لیے کسی شیخِ کامل سے تعلق ضروری ہے۔قبضِ باطنی کا علاج ارشاد فرمایا کہ میرے مرشد اوّل حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب عبادت میں دل نہ لگے، دل پر قبض طاری ہو، دل میں سختی محسوس ہو، رونا تو درکنار رونے والوں کی شکل بنانے کو بھی دل نہ چاہے، اِبْکُوْا تو درکنار تَبَاکَوْاکی بھی توفیق نہ ہو، تو علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الیواقیت و الجواہر میں لکھا ہے کہ یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یا لَاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَتین سو ساٹھ مرتبہ اگر کوئی تین دن بھی پڑھ لے، تو کیسا ہی سخت قبض باطنی ہو، جاتا رہے گا، دل نرم ہوجائے گا۔ محدثین نے لکھا ہے کہ یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُمیں اسمِ اعظم ہے۔ پوری کائنات اسمِ اعظم یَاحَیُّکی تجلی سے حیات یافتہ ہے اور پوری کائنات یَا قَیُّوْمُسے قائم ہے۔ یَاحَیُّکےمعنیٰ ہیں:اَیْ اَ زَلًا اَبَدًا وَ حَیَاۃُ کُلِّ شَیْءٍ بِہٖ مُؤَبَّدًا یعنی وہ ازل سے ابد تک زندہ ہے اور ہر شئے کی حیات اسی سے قائم ہے، اور یَاقَیُّوْمُکےمعنیٰ ہیں:اَیْ قَائِمٌ بِذَاتِہٖ وَیُقَوِّمُ غَیْرَہٗ بِقُدْرَتِہِ الْقَاھِرَۃِیعنی جو اپنی ------------------------------