آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
پرِّ ابدالاں چوں پرِّ جبرئیل ابدالوں کا پر مثل جبرئیل علیہ السلام کے پر کی طرح ہوتا ہے۔ اس خادم نے مولانا سے پوچھا کہ حضرت یہ کون شخص تھا؟ حضرت نے فرمایا یہ مت پوچھو، وہ خادم منہ لگا تھا، اس نے کہا جب تک بتائیں گے نہیں ہم آپ کو سونے نہیں دیں گے۔ بعض خادم منہ لگا بھی تو ہوتاہے، تو حضرت نے ہنس کے فرمایا کہ یہ قطب مقرر تو ہوگیا تھا مگر میرے دستخط کے بغیر اس کی قطبیت نامکمل تھی، اب مکمل ہوگئی۔اتباعِ شیخ کا ایک مثالی واقعہ ارشاد فرمایا کہ مولانا سخاوت علی صاحب اتنے بڑے شخص تھے کہ ان کو سید احمد شہید نے فرمایا کہ تم جونپور میں پڑھایا کرنا،تو وہ نورانی قاعدہ بھی پڑھاتے تھے اور بخاری شریف بھی پڑھاتے تھے ۔ایک شخص نے اعتراض کیا کہ آپ بخاری شریف پڑھانے کے ساتھ نورانی قاعدہ کیوں پڑھاتے ہیں؟ تو حضرت مولانا سخاوت علی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ قطب الاقطاب نے، جن کے دستخط سے لوگ قطب ہوتے تھے، فرمایا کہ میرے پیر نے مجھے پڑھانے کو فرمایا تھا، کتاب متعین نہیں کی تھی،لہٰذا اگر کوئی نورانی قاعدہ لائے گا تو وہ بھی پڑھاؤں گا، کوئی بخاری شریف لائے گا وہ بھی پڑھاؤں گا، کیوں کہ میرے پیر نے فرمایا تھا کہ پڑھایا کرنا، کتاب کا نام نہیں لیا تھا۔ شیخ سے اتنی محبت کرتے تھے۔شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی اتباعِ شیخ ارشاد فرمایا کہ حضرت مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے خاص مرید حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ گنگوہ پہنچے، اس زمانے میں وہاں عرس ہورہا تھا، تو عرس کے زمانے میں حضرت اپنی گدّی اور درس و تدریس وہاں سے ہٹا لیتے تھے تاکہ منکر میں شرکت نہ ہو، تو حضرت شیخ الہند جب تشریف لے گئے تو مولانا گنگوہی نے ناراضگی ظاہر فرمائی کہ تم آج کیوں آئے؟ جبکہ آج عرس میں قافلے آرہے ہیں اور آپ اس میں شامل ہوگئے۔مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ ؎ تو تم آج عرس میں بدعتیوں کے ساتھ شریک ہوگئے۔ تو شیخ الہند نے عرض کیا کہ حضرت میرے قلب میں آپ ہی مقصود تھے، مجھے عرس میں شرکت کا ذرا ساشائبہ بھی نہیں تھا۔فرمایا کہ ------------------------------