آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
حضرتِ والا کے بعض حالاتِ رفیعہ جب میں بیت العلوم ضلع اعظم گڑھ میں شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے مدرسہ میں پڑھتا تھا، تو میرے ساتھیوں نے کہا کہ دیوبند چلے جاؤ، تو میں نے کہا کہ جہاں میرا پیر ہے میں وہیں پڑھوں گا۔ کہنے لگے کہ یہ معمولی مدرسہ ہے۔ میں نے کہا کہ ہم کو علم درجہ ثانوی میں رکھنا ہے مجھے تو مولیٰ کو حاصل کرنا ہے، میں اپنے پیر کے یہاں ہی پڑھوں گا چاہے تعلیم اعلیٰ درجے کی نہ ہو، مجھے اپنے مولیٰ کو لینا ہے جو سب سے اعلیٰ ہے، لہٰذا میں نے وہیں پڑھا۔ لوگ چڑاتے تھے کہ تجھ کو کوئی نہیں پوچھے گا، ہم کو لوگ فاضل دیوبند لکھیں گے۔ میں نے کہا کہ مجھے عزت نہیں چاہیے مجھے ربّ العزت چاہیے، آج اﷲ نے وہ دن دکھایا کہ بڑے بڑے علماء دیوبند اختر کے شاگرد ہیں۔ دیکھو! ایک دیوبند کا فاضل یہیں میرا مرید بیٹھا ہوا ہے، جو آزاد وِل دارالعلوم کا پرنسپل یعنی مہتمم ہے۔ اﷲ کو مقصد بناؤ، عزت تو اﷲ آپ کی جوتیوں میں ڈال دے گا۔ تو میں نے اﷲ کے لیے اپنے شیخ کے مدرسے میں پڑھا اور وہ مدرسہ اتنا غریب تھا کہ ناشتہ بھی نہیں ملتا تھا، صبح سے لے کر ایک بجے تک موٹی موٹی کتابیں پڑھو، ناشتہ میں ایک قطرہ چائے نہیں، بتاؤ کتنے مجاہدے سے میری تعلیم ہوئی! آج جب سوچتا ہوں تو روتا ہوں کہ واہ رے میرے اﷲ! آپ کی کیا شان ہے! جوانی میں پیٹ جلتا ہے تب آدمی تقویٰ سے رہتا ہے، اگر پیٹ میں حلوہ زیادہ آجائے تو بلوہ مچا دیتا ہے۔ تو میرے شیخ نے وہاں کی عید گاہ کی محراب میں نماز پڑھی، اس وقت چاند کی شعاعیں درخت کے پتوں سے چھن چھن کر میرے شیخ پر پڑ رہی تھیں اور میرا اﷲ والا پیر ململ کا سفید کرتا پہنے ہوئے تھا اور ان کا نور ایسا تھا کہ پوچھو مت! بس عجیب کیفیت تھی، تو حضرت نے سلام پھیرنے کے بعد مجھ سے فرمایا کہ حکیم اختر! میں یہیں پیدا ہوا ہوں یعنی عیدگاہ کی محراب میں، حالاں کہ حضرت کا وطن وہاں سے پانچ میل دور تھا، پھر خود ہی فرمایا کہ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ یہاں تشریف لائے تھے تو مجھے یہیں بیعت کیا تھا۔ جب انسان کسی اﷲ والے کے ہاتھ پر بیعت ہوتا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کی روحانی حیات اب شروع ہوئی ہے اور وہ اب پیدا ہوا ہے۔ حضرت کا یہ جملہ مجھے اب تک یاد ہے کہ حکیم اختر میں یہیں پیدا ہوا ہوں۔ اور فرمایا کہ اﷲ کا راستہ یوں تو مشکل ہے، لیکن کسی اﷲ والے کا ہاتھ ہاتھ میں آجائے تو اﷲ کا راستہ صرف آسان نہیں ہوتا بلکہ مزیدار بھی ہو جاتا ہے ؎ مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے تیرا ہاتھ ہاتھ میں آلگا تو چراغ راہ کے جل گئے