آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
محبت کا فیضان ہے، یہ ان کے دل میںفَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍکی تجلی کا ظہورشروع ہوگیا ہے، ربّا کے فیضانِ محبت کے آثار شروع ہوگئے ہیں۔باوفا بندوں کی دوسری علامت اور محبت کی دوسری علامت کیا ہے؟ اَذِلَّۃٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ مسلمانوں کے سامنے اپنے کو مٹادیتے ہیں، مومنین سے نہایت تواضع سے ملتے ہیں، اپنے کو سب سے کمتر سمجھتے ہیں، ان میں تکبر نہیں ہوتا۔ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں بادشاہ فاتحانہ داخل ہوتا ہے تو وہاں کے بڑے بڑے سرداروں اور سرکشوں کو گرفتار کرلیتا ہے تاکہ میری حکومت میں گڑبڑ نہ کریں۔ تو اللہ تعالیٰ جس کے دل میں اپنی عظمت کا جھنڈا لہراتا ہے، تکبر کے چوہدریوں کو پکڑلیتا ہے، پھر اس کے دل میں تکبر نہیں رہتا، وہ مٹ جاتا ہے۔ میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ جس آم کی شاخ میں زیادہ پھل آتا ہے وہ جھک جاتی ہے اور جس میں پھل نہیں ہوتا وہ اکڑی رہتی ہے، تو اکڑے رہنا تکبر کی نشانی ہے اور یہ دلیل ہے کہ اس نے مولیٰ کو نہیں پایا ۔ جس کے دل میں مولیٰ آتا ہے تو وہ اللہ کی عظمتوں کے سامنے جھک جاتا ہے، اس کی چال بدل جاتی ہے: وَ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا؎ اللہ کے خاص بندے زمین پر اپنے کو مٹاکر تواضع کے ساتھ چلتے ہیں۔ میرے شیخ حضرت والا پھولپوری رحمۃاﷲ علیہ نے فرمایا تھا کہ مجھ پر ایک زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کاایسا غلبہ ہوا کہ دو مہینہ تک مارے شرم کے عبدالغنی نے آسمان نہیں دیکھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ جس پر اللہ کی عظمت اور بڑائی کا غلبہ ہوتا ہے، جب اللہ کی عظمت دل میں آتی ہے تو وہ اپنے کو مٹا دیتا ہے وہ پھر اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کا مصداق ہوتا ہے۔کلام اللہ کی بلاغت کا اعجاز علامہ آلوسی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاںعلیٰ کا جو صلہ آیا ہے یہ علماء نحو کے اجماع کے خلاف ہے، ذَلَّ یَذِلُّ کا صلہ لام سے آتا ہے جیسے ذَلَّ زَیْدٌ نَفْسَہٗ لِفُلَانٍ۔ پھر یہاں عَلٰی کیوں آیا؟ اس کا جواب ------------------------------