آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
نہیں آتا تھا۔ میری جوانی تھی مگر اﷲ کی توفیق سے ستّر سال کے بڈھے کے ساتھ میں نے جوانی گزاری، لیکن حضرت کے پاس ایسا لگتا تھا کہ پورا جہاں ان کے قدموں میں ہے۔ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے، ورنہ جوان تو اپنے ہم عمر تلاش کرتے ہیں کہ چلو ہم علیحدہ گپ شپ لگائیں، مگر میں جانتا ہی نہ تھا کہ گپ شپ کیا چیز ہے۔ سارا جہاں مجھے حضرت کے اندر محسوس ہوتا تھا۔ میرا شعر ہے ؎ وہ اپنی ذات میں خود انجمن تھے اگر صحرا میں تھے پھر بھی چمن تھےاﷲ والوں کی فنائیت ارشاد فرمایا کہ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ بہت عمدہ لباس میں رہتے تھے اور مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سادہ لباس میں۔بعض دیہاتیوں نے کہا کہ بزرگ تو مولانا نانوتوی ہیں، کیوں کہ مولانا گنگوہی بہت ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی نے یہ سنا تو کیا جواب دیا۔آج کل کاکوئی متنفس، لالچی اور نفس پرور مولوی ہوتا تو کہہ دیتا کہ ویری گڈ، میں زیادہ وی آئی پی ہوں، مولانا گنگوہی مجھ سے کمتر ہیں۔ مگر مولانا نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ تم کیا پہچانو گے مولانا گنگوہی کو، ہم اگر ان جیسا لباس پہن لیں تو فرعونِ بے ساماں ہوجائیں اور ان کے ہاں عمدہ لباس اور ٹاٹ کے درمیان کوئی فرق نہیں، خواہ وہ ٹاٹ پہن لیں یاشاندار لباس دونوں لباسوں میں ان کی حالت یکساں رہتی ہے ؎ اُڑا دیتا ہوں اب بھی تار تارِ ہست و بود اصغرؔ لباسِ زُہد و تقویٰ میں بھی عریانی نہیں جاتی سبحان اﷲ! یہ ہے دونوں بزرگوں کا مقامِ فنائیت۔صدیقین کی شہداء پر فضیلت کے منقول و معقول دلائل ارشاد فرمایا کہ جوشخص اپنے نفس کو مغلوب کرتا ہے، ذلیل و خوار کرتا ہے یعنی نفس کی بُری خواہش کو مارتا ہے یہی ہے اپنے مالک پر، اپنے اللہ پر مرنے کا مفہوم۔ جس نے اپنی بُری خواہش کو مار دیا اس نے گویا اپنے کو اللہ پر فدا کردیا، یہ بھی شہادت ہے۔ تفسیر بیان القرآن میں حکیم الامت نے لکھا ہے کہ جو اپنی بُری خواہش پر عمل نہ کرنے کا غم اٹھالے اور اپنے دل کا خون کرلے تو یہ شہادتِ باطنی معنوی ہے، یہ بھی شہداء