آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
صورتوں پر اچانک نظر پڑجاتی ہے اور قلب اس میں مبتلا ہوجاتا ہے اور قلب کا زاویہ اﷲ سے ایک سو اسّی ڈگری پھرجاتا ہے اور جب حسین پر نظر پڑگئی اور دل میں اس کا نقش و نگار آگیا تو قلب کی اپنے مولیٰ اور پالنے والے کی طرف پیٹھ ہوجاتی ہے حتیٰ کہ بعض لوگوں نے مجھے بتایا کہ نماز میں بھی اسی کا خیال آتا ہے۔شیخ کے پاس اہتمامِ اعمال کے ساتھ رہنا ضروری ہے اب بتاؤ! قبلہ سامنے ہے، نماز کی نیت کرتے وقت زبان سے کہتے ہیں کہ منہ میرا کعبہ شریف کی طرف اگرچہ یہ کہنا ضروری نہیں ہے لیکن ان ہی سے پوچھ لو کہ تمہارا دل کدھر ہے؟ اس لیے میں دردِ دل سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ساتھ رہتے ہیں مگر ساتھ نہیں رہتے، شیخ کے پاس عمل کے ساتھ رہو اور ارادہ کرلو کہ جان دے دیں گے مگر اپنی حرام آرزو کو حاصل نہیں کریں گے، حرام لذتوں سے جب تک توبہ نہیں کرے گا اور یہ ارادہ نہیں کرے گا کہ ہم اﷲ کو ناراض کرکے، اﷲ تعالیٰ کی ناخوشیوں کے راستوں سے دل میں ایک اعشاریہ بھی حرام خوشیاں نہیں لائیں گے، اس کے بغیر اﷲ تعالیٰ کے قرب کا خواب دیکھنے والا محض گدھا اور بین الاقوامی اُلو اور بے وقوف ہے، یہ آنکھوں کا چور ہے۔ ایک بزرگ نے فرمایا ؎ چوریاں آنکھوں کی اور سینوں کے راز جانتا ہے سب کو تو اے بے نیاز جیسے کولہو کا بیل ہوتا ہے، جہاں سے چلتا ہے وہیں رہتا ہے اس کا دائرۂ سفر محدود رہتا ہے، ایسے ہی گناہ نہ چھوڑنے والا پوری زندگی سلوک میں رہتا ہے، چلتا تو رہتا ہے، مگر ایک حد میں رہتا ہے، آگے ترقی نہیں ہوتی۔ اس لیے سالکین سے دردِ دل سے کہتا ہوں، یہ میرے اس سفر کی آخری گزارش ہے کہ ہمت کرلو، واﷲ! کچھ مشکل نہیں ؎ جو آساں کر لو تو عشق ہے آساں جو دشوار کر لو تو دشواریاں ہیں ارادہ کرلو، اﷲ نے ارادے میں طاقت دی ہے، اگر ہمیں تقویٰ سے رہنے کی طاقت نہ ہوتی تو تقویٰ فرض ہی نہ ہوتا، تقویٰ کی طاقت نہ ہو اور تقویٰ فرض کیا جائے تو یہ ظلم ہے یا نہیں؟ اور اﷲ ظلم سے پاک ہے، اصل میں ہم گناہ چھوڑنے کا ارادہ ہی نہیں کرتے، ہم نے اپنے خبیث عمل کی لذتِ حرام کو عادتِ ثانیہ بنا رکھا ہے، جب تک اِدھر