آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
پست آواز کا انعام (احقر راقم الحروف کی آواز اونچی ہونے پر فرمایا) اس کو نوٹ کرکے جیب میں رکھو، عمل کے لیے استحضارِ علم بھی ضروری ہے، بعض وقت علم ہوتا ہے، مستحضر نہیں رہتا۔ جب آپ زور سے بول رہے تھے تو آپ کو استحضار تھا کہ میرا شیخ بھی یہاں ہے؟ یہی تو کہہ رہا ہوں کہ اپنے سمجھنے پر بھروسہ مت کرو، نظر کی حفاظت کے ساتھ آواز کو بھی پست رکھو پھراُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ کا انعام ہے کہ جو لوگ میرے نبی کے پاس آواز کو بھی پست رکھتے ہیں، ہم نے ان کے اس ادب کو قبول کرکے ان کے دلوں کو اپنی دوستی کے لیے خالص کرلیا اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی،؎ اِمْتَحَنَ بمعنیٰ اَخْلَصَہے، دیکھیے تفسیر روح المعانی، کیوں کہ اہلِ عرب بولتے تھے اِمْتَحَنْتُ الذَّھَبَ بِالنَّارِ؎ میں نے سونے کو خالص کرلیا ہے آگ میں ڈال کر، توغضِّ اصوات کا انعام سنا؟ یہ معمولی انعام ہے؟ تو ایسے انعام پر حریص کیوں نہیں ہوتے ہو کہ غضِ اصوات کر کے یہ انعام حاصل کرلیں اور اپنے قلب کو اﷲ کی دوستی کے لیے خالص کرلیں۔ اب آیندہ خیال رکھنا اس کا۔ اب اگر آپ کہیں کہ میری تو قدرتی آواز یہی ہے تو قدرتی آواز کو بالارادہ پست کرو، تکلف کے ساتھ پست کرو کیوں کہ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ محبت اگر شیر کو بھی ہے تو وہ بھی اپنے محبوب کے سامنے نزول کر کے چوہا ہوجاتا ہے ؎ از محبت شیر موشے می شود محبت سے شیر نزول کر کے چوہا ہوتا ہے۔ سمجھ گئے آپ! اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ کسی کو کوئی بہت راز کی بات بتانا چاہ رہے ہوں اور دوسروں کے سننے سے اس راز کے فاش ہونے کا آپ کو خطرہ ہو تو اس کے کان میں آپ آہستہ سے کھسر پھسر کرتے ہو، اس وقت آپ کو آہستہ بولنے کی توفیق ہوجاتی ہے تو اﷲ کی محبت میں بھی یہی طرز اختیار کرو، لہٰذا آواز کو ہمیشہ پست کرو، آپ کی آواز حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے زیادہ اونچی نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس حکم کے بعد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اتنا آہستہ بولتے تھے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا کہ اے عمر کیا کہا تم نے؟ اب کون ظالم ہے جو کہے کہ ہماری آواز تو قدرتی بلند ------------------------------