آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
شیخ کے مواخذہ پر اعترافِ قصور کی تعلیم ایک صاحب سے مولانا شاہ ابرارالحق صاحب بہت ناراض تھے، کئی برس سے ان کی خط وکتابت چل رہی تھی، میں حیدر آباد دکن گیا تو حضرت نے ان کو تار دے کر بلوایا اور فرمایا کہ تم اپنے معاملات کے سارے خطوط دکھاؤ، انہوں نے شیخ سے بڑی اگر مگر لگا رکھی تھی کہ اس میں یہ بات ہے، اس میں یہ وجہ ہے اور آپ ذرا ذرا سی بات میں ناراض ہوجاتے ہیں، تو حضرت نے لکھا کہ میں جتنا ناراض ہوتا ہوں اتنا ہی جلد راضی بھی تو ہوجاتا ہوں۔ شیخ نے ان کو میرے حوالے کر دیا کہ تم اس کو سمجھا ؤ تو میں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ اگر مگر چھوڑ دو سیدھا سیدھا لکھ دو کہ میں اعترافِ قصور کرتا ہوں، اپنی تمام خطاؤں کی معافی چاہتا ہوں اور آیندہ ان شاء اﷲ احتیاط کروں گا۔ یہ ایسے جملے ہیں کہ جس سے شیخ کو اذیت نہیں پہنچتی۔ بس کیا کہیں، بے وقوف انسان اس کو سمجھتا نہیں ہے، اسی سے شیخ کو تکدر ہوتا ہے اور اذیت پہنچتی ہے۔ مرید یہ سمجھتا ہے کہ میں اگر مگر لگا کر دائرہ ٔمواخذے سے نکل جاؤں گا، مگر یہ اﷲ کے راستے کا ادب نہیں ہے، فوراً اعتراف کرلو اگر چہ قصور نہ بھی ہو۔ جو مزہ رَبَّنَا ظَلَمۡنَا میں ہے وہ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّخَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ میں نہیں ہے، جیسا کہ شیطان نے کہا تھا کہ اے اﷲ! مجھے آپ نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اور اس میں کبریٰ محذوف ہے، وہ کیا ہے کہ اَلنَّارُ اَفْضَلُ مِنَ الطِّیْنِ آگ افضل ہے مٹی سے، تو گویا آپ افضل کو فاضل کے سامنے سجدے کا حکم دے رہے ہیں؟ ابلیس اﷲ میاں کو یہ مشورہ دے رہا ہے۔آیت رَبَّنَا ظَلَمْنَا… الخ سے ادبِ اعترافِ قصور کی دلیل اسی لیے کہتا ہوں کہ شیخ کے ساتھ اگر مگر اور بحث و مباحثہ عذرو تاویلات کا شیطانی راستہ اختیار نہ کرو بلکہ سیدھا سیدھا اعترافِ قصور کر لو۔ اگر کوئی پوچھے کہ یہ اعترافِ قصور آپ نے کہاں سے سیکھا تو سن لو کہ یہ تصوف بلادلیل نہیں ہے رَبَّنَا ظَلَمْنَانے یہ بتایا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام یہ کہہ سکتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ میں بھول گیا تھا، لیکن آپ نے اعترافِ قصور کرلیا۔ جب آدم علیہ السلام نے ممنوعہ درخت کو کھا لیا تو اﷲ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ فَنَسِیَآدم علیہ السلام بھول گئے تھے وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا؎ ان کے قلب میں خطا کے ارادے کا ایک ذرّہ تک نہیں تھا، ------------------------------