آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
حضرتِ والا کی اَمردوں سے احتیاط میرے یہاں ایک لڑکا داخلہ لینے آیا، مگر ظالم بلا کا حسین تھا،آنکھیں کیا تھیں کہ ہرن کی آنکھ بھی شرما جائے۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے بیعت ہوں گا، میں نے بیعت کرلیا، اس نے کہا کہ میں اسی مدرسے میں پڑھوں گا اور ساری زندگی آپ کے قدموں میں رہوں گا۔ میں نے کہا کہ آپ داخلہ کسی اور مدرسے میں لیجیے، مجھے آپ کے حسن کا تحمل نہیں ہے، جب خوب داڑھی آجائے پھر آئیے گا، اس وقت داخلہ دے دوں گا اور پچھلی قضا بھی ادا کردوں گا یعنی ہم نے آپ کو زمانۂ حسن میں جو نہیں دیکھا یا معانقہ یا مصافحہ نہیں کیا پھر میں ایسا دبوچوں گا کہ تو بھی یاد کرے گا تیری پسلی توڑ دوں گا، لیکن ابھی اﷲ کے غضب سے ڈرتا ہوں، لہٰذا دوسرے مدرسے میں داخلہ لو، مگر خط لکھتا رہتا ہے کہ میں آپ کی یا د میں روتا رہتا ہوں اور دعا میں اﷲ سے داڑھی بھی مانگتا ہوں کہ کب میرے داڑھی آئے گی اور میں آپ سے ملوں گا اور میرا دل کہیں نہیں لگتا۔ میں اس کو جواب یہی لکھ دیتا ہوں کہ صبر کرو، آپ کو اس دوری میں اﷲ کی حضوری نصیب ہوگی،کیوں کہ یہ دوری اﷲ کے لیے ہے۔ میں اپنی تقریر میں جو اَمرد لڑکے ہیں ان کو سامنے نہیں بیٹھنے دیتا، ورنہ میں مضمون ہی بھول جا تا ہوں، حسینوں پر نظر پڑنے سے آسمان سے جو مضمون کی آمد ہوتی ہے اس میں ان کا حسن حائل ہوجاتا ہے، جیسے عود کی خوشبو آرہی ہے، مگر ساتھ ساتھ بیت الخلاء سے بدبو بھی آرہی ہو تو خوشبو کا اثر محسوس نہیں ہوتا۔ میر صاحب تیس برس سے میرے ساتھ ہیں، ان سے پوچھو کہ میں اُس داڑھی والے سے بھی پیر نہیں دبواتا جس میں کچھ نمک اور کشش ہو، کیوں کہ علامہ شامی نے لکھا ہے: اِنَّ بَعْضَ الْفُسَّاقِ یُقَدِّمُ ذَا اللِّحْیَۃِ الْقَلِیْلَۃِ عَلَی الْاَمْرَدِ الْحَسَنِ الَّذِیْ لَاشَعْرَ عَلٰی وَجْہِہٖ شَعْرَۃً وَّاحِدَۃً؎ یعنی بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہلکی ہلکی داڑھی والوں کو مفعول بنانے کی زیادہ مشتاق رہتی ہیں، بہ نسبت ان کے جن کے چہرے پر بال نہ ہوں۔ او ر میر کے خد و خال پر میں نے ایک شعر کہا ہے ۔ خد معنیٰ چہرہ اور خال معنیٰتل۔ تو وہ شعر ہے ؎ ------------------------------