آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اکابر کے نزدیک صحبتِ شیخ کی اہمیت یہ علامہ انور شاہ کشمیری کا ارشاد ہے، انہوں نے مولانا عبد اﷲ شجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ بخاری شریف ختم ہوگئی لیکن روحِ بخاری ابھی نہیں ملے گی، جاؤ کم سے کم چھ مہینے کسی اﷲ والے کی جوتیاں اٹھاؤ وہاں تم کو روحِ بخاری ملے گی اور مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ حدیث پڑھانے کا اور پڑھنے کا مزہ جب ہے کہ استاد بھی صاحبِ نسبت ہو اور شاگرد بھی صاحبِ نسبت ہو۔ آج اسی دردِ دل کی کمی ہے، مدارس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن اب طلبہ کو بھی ذوق نہیں رہا۔ اہل اﷲ سے محبت معمولی نعمت نہیں ہے، لیکن ہم خوش ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جو تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ پیری مریدی والے سب چکر باز ہیں، پاگل ہیں، ان کے لیے میں ایک شعر پڑھتا ہوں ؎ مرے حال پر تبصرہ کرنے والو تمہیں بھی اگر عشق یہ دن دِکھائےصحبتِ شیخ کے فیوض و برکات الحمد ﷲ کہ بچپن ہی سے اﷲ نے مجھے اہل اﷲ کی محبت عطا فرمائی اور میں نے کسی کی پروا نہیں کی،یہاں تک کہ اساتذہ بھی منع کرتے تھے، گو اخلاص سے کہ پیری مریدی میں کہیں اس کی علمی استعداد کمزور نہ ہوجائے، میں نے کہا کہ میں ہر طرح سے برباد ہونے کے لیے تیار ہوں، مگر اپنے قلب میں اپنے مولیٰ کو آباد کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے سب کے تبصرے منظور ہیں۔ لیکن اب وہی اساتذہ جو ہم کو منع کرتے تھے کہ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس زیادہ مت جایا کرو، علم میں زیادہ محنت کرو،ان ہی اساتذہ نے جنہوں نے ہمیں مشکوٰۃ شریف پڑھائی تھی جب میری تقریر سنی، تو ٹوپی اتار کر فرمایاکہ میرے سر پر ہاتھ رکھ دو، اور میری مثنوی کی شرح پڑھ کر میرے فارسی کے استاد نے پوچھا کہ کیا تم نے کہیں اور بھی فارسی پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ آپ نے جو فارسی پڑھائی تھی اتنی ہی پڑھی ہے، باقی سب حضرت کی کرامت و برکت ہے کہ اہلِ ایران جن کی مادری زبان فارسی ہے وہاں کے ایک بڑے عالم علامہ زاہد نیشاپوری نے خط لکھا کہ تمہاری مثنوی جو پڑھتا ہے اس کو مثنوی مولانا روم سمجھتا ہے ’’ہر کہ او مثنوی اختر را بخواند او را مولانا روم پندارد‘‘۔