آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
قریب رہیں، ایک سیکنڈ کو بھی ہم سے جدا نہ ہوں، اس لیے عاشقوں کی حیات اﷲ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی پر ہوتی ہے، وہ ایک لمحہ بھی اﷲ کو ناراض کرکے حرام لذت کا ایک کلو لینا تو درکنار اگر کبھی غلطی سے حرام لذت کا ایک ذرّہ بھی ان کے دل میں آجاتا ہے تو اس حرام لذت کو بھی ندامت واستغفار سے رو رو کر واپس سرکار میں جمع کرادیتے ہیں کہ اے اﷲ ان شکلوں سے میرے نفس نے جو کچھ حرام لذت کی چوری کی، ہم اپنے مستلذات محرّمہ مسروقہ سے ندامت کے ساتھ معافی چاہتے ہیں،یعنی ہم نہیں چاہتے کہ آپ کی ناخوشی کے راستے ایک ذرّہ سے بھی ہمارا دل خوش ہوجائے، ایسی خوشی پر ہم لعنت بھیجتے ہیں جس سے میرا مالک ناخوش ہو ؎ ہم ایسی لذتوں کو قابلِ لعنت سمجھتے ہیں کہ جن سے رب مرا اے دوستو ناراض ہوتا ہے جب تک حسینوں کو دیکھنے سے آپ کو بے چینی اوراضطراب اور ندامت نہ ہو تو آپ مولیٰ والے نہیں ہیں اور آپ کے دل کا ترازو صحیح نہیں ہے۔عاشقانِ حق کا میزانِ قلب انتہائی حسّاس ہوتا ہے ایک سنار میرا مرید ہے، اکثر دوست اسے جانتے ہیں، اس نے کہا کہ جب ہم سونا تولتے ہیں تو سانس روک لیتے ہیں، سانس سے بھی وزن خراب ہوجاتا ہے، کانٹا ہل جاتا ہے، اتنا نازک ترازو ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو نہایت لطیف اور نازک ترازو دیتا ہے کہ اگر کسی حسین پر اچانک نظر پڑجائے اور ان کا نفس غیرشعوری طور پر، الفاظ یاد رکھو غیر ارادی، غیرشعوری طورپر بھی ان کے نفس میں، ان کے دل میں، ان کے باطن میں حرام لذت امپورٹ ہوجائے، تو ان کے قلب کے ترازو کا کانٹا فوراً بتا دیتا ہے کہ آگیا کوئی زہر، خوشی کی ا س ہلکی سی لہر کو بھی وہ ریکارڈ کرتے ہیں اور اﷲ سے استغفار کرتے ہیں اور اس مضمون سے معافی مانگتے ہیں کہ اے خدا! غیرشعوری طور پر جس کا ہمیں احساس بھی نہ ہواہو، لیکن پھر بھی میرے نفس نے اگر کوئی حرام لذت درآمد کی ہو، آپ کے علم میں جو ذرّات، جو اعشاریہ بلکہ اعشاریہ کا بھی سواں حصہ اگر میں نے کسی وقت بھی جب سے بالغ ہوا ہوں آپ کی ناخوشی کی راہوں سے جتنی خوشیاں بھی حاصل کی ہیں، میں ندامت کے ساتھ اور خون کے آنسوؤں کے ساتھ معافی کا خواستگار ہوں، اس لیے کہ ہم اس خوشی کو مبارک نہیں سمجھتے جس سے آپ ناخوش ہوں، کیوں کہ آپ ہمارے وجود کے خالق ہیں، ہمارے رب یعنی پالنے والے ہیں، ہم ہر سانس آپ کے احسانات میں دبے ہوئے ہیں۔