آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہوجاتی ہے۔ تو کچھ نہ کرو اور مزدوری لے لو، عجیب مولیٰ ہیں ہمارے ؎ اعلیٰ مزدوری پا جا عمل کے بغیر ماشاء اﷲ نفس کو رومانٹک کا سارا مزہ مل رہا ہے، کہیں اور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ حلال نعمت حاصل کرو، نفس کو اسی میں بہلائے رکھو، وہ خشک ملّا جو نفس کو حلال مزہ بھی نہیں دیتا تو پھر اس کا نفس بُری طرح سے رسّی تڑاکر گندے کام کرواتا ہے۔ یہ تجربے کی بات بتارہا ہوں، اس لیے نفس کو جہاں تک ہوسکے حلال نعمتوں میں بہلاتے رہو، ان شاء اﷲ پھر حرام کا خیال بھی نہیں آئے گا، جو نفس کو نہ حرام دے نہ حلال دے تو نفس کہتا ہے کہ بہت ہی غالی کنجوس مُلّا ہے، اس کے ساتھ رہنا مشکل ہے، تو پھر وہ ایک دن رسّی تڑا ئے گا اور سب گناہ کرائے گا، اس لیے نفس کو حلال نعمتوں میں مشغول رکھو تا کہ نفس کو احساسِ محرومی نہ ہو کہ یا اﷲ میں کس مُلّا کے یہاں پیدا ہوگیا۔ اب بتاؤ اس مجلس میں مزہ آرہا ہے کہ نہیں؟ کسی معشوق یا معشوقہ کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس وقت عارفانہ کلام سے کس طرح اپنے کو اﷲ کی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ مولانا یہ سماع جو ہے غذائے عاشقاں ہے۔ مولانا رومی کا مصرع ہے ؎ سماع باشد غذائے عاشقاں اچھے اشعار سننایہ عاشقوں کی غذا ہے، اور غذا کھاؤ گے تو تگڑے رہو گے۔ ارے سب لوگ روحانیت کے لحاظ سے تگڑے ہو رہے ہیں ۔مرتبۂ صدیقیت رب ہو ناراض جس سے عمل وہ نہ کر اوجِ صدیقیت ہے عمل کے بغیر بتاؤ!یہ کتنا بڑا وعظ ہے۔ جو اس کو خالی شاعری سمجھے وہ اُلّو ہے بلکہ اُلّو کا ابّا ہے بلکہ اُلّو کا دادا ہے۔ دوسرے مصرع کی شرح یہی ہے کہ صدیقِ اکبر نے کوئی عمل ایسا نہیں کیا جس سے اﷲ ناراض ہو، انہوں نے ایک لمحہ کو بھی اﷲ کو ناراض نہیں کیا۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ ان کے کمرے میں جو لکڑی کی چھت تھی وہ ان کی آہ و فغاں سے سیاہ ہوچکی تھی۔ ان کے سینے میں عجیب آگ بھری ہوئی تھی ۔