آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
سے زیادہ ہے۔ مولانا رومی آگے فرماتے ہیں ؎ اے کہ شیراں مر سگانش را غلام گفتن امکاں نیست خامش والسلام اے دنیا والو!بہت سے شیر اس کتے کے غلام بنے ہوئے ہیں اور عاشق بنے ہوئے ہیں، اور فرماتے ہیں تم لوگ سمجھ نہیں سکتے ہو،اب اس سے زیادہ میں آدابِ محبت نہیں سکھا سکتا، لہٰذا اب میں خاموش ہورہا ہوں، لیکن سلام بھی کررہا ہوں کہ میں اپنا راستہ لیتا ہوں تم اپنا راستہ لو۔ اس سے سبق ملا کہ خانقاہ میں شیخ کے کتے اور بلی کا بھی ادب کرو اور گیٹ مین اور باورچی کا بھی ادب کرو اور جو اس کے یہاں مہمان رہتے ہیں ان کا بھی ادب کرو، مگر اس پر عمل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عشق ومحبت نہ ہو، ورنہ اِس کان سے سنے گا اُس کان سے نکال دے گا پھر جب غصہ چڑھے گا تو اسے نہ لیلیٰ یا د آئے گی نہ اس کے کتے کے آداب یاد آئیں گے، وہ سب کو دسترخوان سے اٹھا کے بھگا دے گا کہ تم اس وقت کھانے پر کیوں بیٹھ گئے؟ اﷲ کا راستہ بہت نازک ہے، بہت حسّاس ہے، بہت عظیم ہے، جس کو اﷲ پیار کرے اسی کی عقل میں یہ سب باتیں آتی ہیں۔ مولانا رومی پر اﷲ کا خاص فضل تھا انہیں یہ بات سمجھ میں آگئی اسی لیے فرمایا ؎ اے خدا جوئیم توفیقِ ادب بے ادب محروم ماند از فضلِ رب اے اﷲ! ہم آپ سے ادب کی توفیق مانگتے ہیں، بے ادب اﷲ کے فضل سے محروم رہتا ہے۔ اورمیرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے طُرُقُ الْعِشْقِ کُلُّھَا اَ دَبٌ عشق کا راستہ ابتدا تا انتہا ادب ہے۔ ۱۳؍رجب المرجب ۱۴۱۹ھ مطابق۴؍ نومبر ۱۹۹۸ء، بروز بدھ، برمکان مفتی حسین بھیات صاحبصحابہکے ادبِ غضِ صوت پر انعامِ الٰہی ارشاد فرمایا کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم کا امتحان لیا گیا کیوں کہ وہ محبوب تھے، امتحان محبوب ہی کا لیا جاتا ہے تاکہ اس کو انعام دیا جائے۔ اب کسی کا ایک بیٹا ہو، بہت زیادہ پیارا ہو، وہ کہیں جائے اور لوگ اس کا ادب نہ کریں، بدتمیزی کریں تو باپ کا دل غمگین ہوگا یا نہیں؟ تو اﷲ تعالیٰ بھی اپنے اولیاء کے ادب کو