آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
یقیناً یہ ہماری طرف سے ترکِ ادب اور گستاخی ہےکہ اللہ کے ہوتے ہوئے ہم کن عیب دار جسموں پر مررہے ہیں۔ یہ نفسانی خواہش ہے اور نعمت کی ناشکری ہے کہ آپ جیسے آفتاب کے سامنے ہم غیر اللہ کے چراغ اور موم بتی سے دل لگاتے ہیں جبکہ آپ پاک ہیں اور غیر اللہ فانی ہے، آپ بے عیب ہیں اور محبوبانِ مجازی عیب دار ہیں جن کا حسن بھی علیٰ معرض الزوال ہے ، اس کی پیش قدمی ہر وقت زوال کی طرف ہے اور آپ کا جمال ہر وقت قائم و دائم ہے، آپ کی ہر وقت ایک نئی شان ہے ۔کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ؎صاحبِ تفسیر روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہاں یوم معنیٰ میں وقت کے ہےاَیْ فِیْ کُلِّ وَقْتٍ مِّنَ الْاَوْقَاتِ وَ فِیْ کُلِّ لَمْحَۃٍ مِّنَ اللَّمْحَاتِ وَ فِیْ کُلِّ لَحْظَۃٍ مِّنَ اللَّحْظَاتِ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ؎ یعنی ہر وقت ہر لمحہ اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی ایک نئی شان ہے۔قلبِ شکستہ اور نزولِ تجلیات ارشاد فرمایا کہ جب تک حسن پر عالمِ شباب تھا اس وقت تک اللہ کے قانون کو توڑ کر اس حسن پر فدا ہوتے رہے، لیکن جب اس حسین کے دانت ٹوٹ گئے ، گال پچک گئے ، بال سفید ہوگئے، اب اگرحسن کے ڈیزائن کو ریزائن دیا تو یہ شخص اللہ کے یہاں ولی نہیں ہوسکتا اور نہ کوئی اجر پائے گا، کیوں کہ یہ طبیعت کا غلام ہے ۔جب تک اس میں کشش تھی یہ اس پر پاگل تھا اور جب حسن زائل ہوگیا تو وہاں سے بھاگا۔طبیعت سے عاشق ہوا اور طبیعت سے بھاگا،یہ فرار اللہ کے لیے کہاں ہے؟ لہٰذاطبیعت کا غلام اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا، اور اولیاء اللہ کا یہ مقام ہوتا ہےکہ عین عالمِ شبابِ حسن میں وہ حسن پر نظر نہیں ڈالتے جبکہ طبیعت ان کی بھی چاہتی ہے کہ ہم بھی دیکھ لیں، مگر اولیاء اللہ اپنا دل توڑتے ہیں، اللہ کے قانون کو نہیں توڑتے، کسی حسین کو نہیں دیکھتے ، اللہ کے قانون کا احترام کرتے ہیں ، نظر بچا بچا کر غم پر غم اُٹھاتے ہیں، تو ایسے قلبِ شکستہ اور حسرت زدہ پر اللہ تعالیٰ کے قرب کی تجلیاتِ متواترہ، مسلسلہ، وافرہ، بازغہ نازل ہوتی ہیں۔ اس کے دردِ دل اور اس کے دل کے جلے بھنے کباب کی خوشبو سے وہ خود بھی مست ہوگا اور اس کے پاس بیٹھنے والے بھی مست ہوں گے اور ان کو احساس ہوگا کہ واقعی اس شخص نے اللہ کے راستے میں بہت غم اُٹھائے ہیں ؎ داغِ حسرت سے دل سجائے ہیں تب کہیں جا کے اُن کو پائے ہیں ------------------------------