آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
میر کے خدوخال سے گو تھے کبھی نڈھال ہم کثرتِ بالِ میر سے بچ گئے بال بال ہم اور ؎ میر نے اس بت کا جب پیچھا کیا کرب و غم نے میر کا پیچھا کیا اپنے پیچھے کا جو غم دیکھے ہے میر اس کے پیچھے کا نہ پھر پیچھا کیا یہ شعر ڈابھیل کے مفتی صاحب نے نوٹ کیا کہ اس میں زبردست بلاغت ہے۔صحبتِ شیخ کی برکات تو اﷲ تعالیٰ کی کثرتِ یاد اور شیخ کی محبت اور طویل صحبت سے قلب کا مزاج ایسا ہوجائے گا کہ دل اﷲ سے چپک جائے گا اور ایسا چپکے گا کہ سارا عالم اسے ایک بال کے برابر نہیں ہٹا سکے گا، چاہے حُسن کا باپ ہو، چاہے دادا ہو، چاہے انٹرنیشنل حسن میں اوّل آئی ہو، اس کے چہرے پر تو حسن ہے، مگر اس کے گراؤنڈ فلور کے اندر پیشاب پاخانہ ہے، اس کی ناف کے نیچے تین ملک ہیں ہگستان، پادستان اور موتستان۔ تو اﷲ اپنے پیارے بندوں کا مزاج بدل دیتا ہے اور حسینوں سے اس کو بے چینی ہوتی ہے، اﷲ سے دور کرنے والے اسباب اور اعمال اور اخلاق سے اس کو گھبراہٹ اور پریشانی ہوجاتی ہے، یہ علامت اولیاء اﷲ کی ہے کہ حسینوں کو دیکھ کر بجائے خوشی ہونے کے کہ آہا اچھا مال آرہا ہے، ذرا دیکھ لوں، اس کا قلب کانپنے لگتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ پودے کی جڑ چھوٹی سی ہوتی ہے، آدمی اس کو آسانی سے اُکھاڑ لیتا ہے اور جس کی جڑ گہری ہوتی ہے اس کو ہلانے والے کو پسینہ آجاتا ہے، تو جب بندے کا تعلق مع اﷲ قوی ہوجاتا ہے تو گناہ کا کام کرنے کے ارادے ہی سے اسے پریشانی شروع ہوجاتی ہے، بس تھوڑی سی محنت کرلو ؎ سر شکستہ نیست ایں سر را مبند چند روزے جہد کن باقی بخند