آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
’’تیتروں‘‘ میں بہار ہوتی ہے؟ ؎ ان کی یادوں میں کچھ تسلسل ہے تیتروں میں بہار آئی ہے دیکھاحسینوں کا انجام! ایک شعر اور سنو! ؎ اے ہوائے کوئے جاناں اس قدر خوشبو ہے کیوں سخت حیرت ہے کہ سب کی ناک پہ انگلی ہے کیوں ایسے مرنے والوں پر مرنے والے کیا بین الاقوامی الّو، ڈونکی اینڈ منکی نہیں ہیں؟دنیا عارضی سرائے، آخرت حقیقی مسکن یہ مانا ہم نے چمن میں خوش رنگ گل سے بلبل ہے مست و شیدا مگر نشیمن جو عارضی ہو تو اس کو مسکن میں کیوں بناؤں کیوں کہ پھول مرجھا کر زمین پر گر گئے، اب بلبل کہتا ہے کہ ارے ہم نے جن پر جان دی تھی وہ تو زمین پر بکھرے پڑے ہیں اور دوسری کلی کے کھلنے میں ابھی دیر ہے تو وہ نشیمن سے بھاگ جاتا ہے اور ہروقت غم زدہ رہتا ہے، اسی لیے بلبل کی آنکھ میں ہمیشہ آنسو رہتا ہے، آپ کسی بلبل کو دیکھیں تو اس کی آنکھ میں آنسو ہوگا، کیوں کہ اس کے پھول روزانہ مرجھا کر گرجاتے ہیں، وہ اپنے معشوق کی بہاروں کی ویرانی دیکھ کر غم زدہ رہتا ہے ۔سکونِ دل در مجلسِ اہلِ دل مجھے تو اخترؔ سکونِ دل گر ملا تو بس اہلِ دل کے در پر تو اُن کے در کو میں اپنا مسکن صمیمِ دل سے نہ کیوں بناؤں میں نے پندرہ سال کی عمر میں طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور تھوڑی فارسی پڑھی تو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ الٰہ آباد میں رہتے تھے،تین سال تک ان کے در پر اﷲ کی محبت سیکھتا رہا۔ بعد میں شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے در پر جانا ہوا اور اب حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کے در سے اﷲ تعالیٰ عطا فرمارہے