آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
جو کہا تو سب رونے لگے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ بڑے پیر صاحب شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اے صوفیو! اور اے علماء! پہلے شیخ کے پاس اپنا مٹکا بھرو، جب مٹکا بھر کر چھلکنے لگے تو چھلکتا ہوا مال مخلوق کو دو، اپنا مٹکا مت خالی کرو۔ تو جب وہ عالم اﷲ والے بن گئے تب ان کا ایک وعظ ہوا اور مسجد میں جتنے لوگ تھے سب ولی اﷲ ہو گئے، تب وہ عالم رونے لگے کہ دس سال تک میں نے وعظ کہا اور کوئی ولی اﷲ نہ بنا، لیکن اس اﷲ والے کی غلامی کے صدقے میں اب میرے دل میں وہ درد ومحبت اور اﷲ کی نسبت قائم ہوگئی کہ آج میری زبان میں اﷲ نے وہ اثر رکھا ہے کہ جہاں وعظ کرتا ہوں سارے سامعین ایک ہی وعظ میں صاحبِ نسبت ہورہے ہیں۔ یہ کوکر کی شان ہے کہ پہلے جو بریانی چھ گھنٹے میں پکتی تھی آج کل کوکر میں آدھے گھنٹے میں تیار ہوجاتی ہے۔ جب دل اﷲ کے عشق میں اور گناہ سے بچنے کا غم اٹھا کر جلا بھنا کباب ہوتا ہے تو اس کی صحبت سے لوگ جلد صاحبِ نسبت اور ولی اﷲ ہوجاتے ہیں۔ہجرت سے کیا سبق ملتا ہے؟ تو یہ عرض کررہا ہوں کہ ہجرت کے فرض ہونے نے یہ مسئلہ بتا دیا کہ وطن کو معبود مت بناؤ، اﷲ والوں کے ساتھ رہو، ہجرت کے اندر یہ راز رکھ دیا کہ جہاں تم کو اﷲ والے مل جائیں تو وطن سے نکلو اور ان کے ساتھ رہو۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ امرود ملتاہے امرود والوں سے، آم ملتا ہے آم والوں سے، کپڑا ملتا ہے کپڑے والوں سے، مٹھائی ملتی ہے مٹھائی والوں سے اور کباب ملتا ہے کباب والوں سے۔ میں کباب والی بات آخر میں کہتا ہوں کیوں کہ میرا کباب پر ایک شعر ہے ؎ کچھ نہ پوچھو کباب کی لذت ایسی جیسے شباب کی لذت تو اخیر میں میرے شیخ فرماتے تھے کہ اﷲ ملتا ہے اﷲ والوں سے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو مولانا قاسم نانوتوی، مولا نا گنگوہی اور بڑے بڑے علماء شیخ کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہ کرتے۔ مشکوٰۃ شریف کے شارح شیخ عبد الحق دہلوی بھی کتراتے کتراتے پھرتے تھے، بیعت نہیں ہوتے تھے، پھر ان کے والد نے ان کو خط لکھا، حیاتِ عبد الحق میں دیکھ لو، وہ میں نے خود پڑھا ہے۔ لکھا ’’پسرم ملّائے خشک و ناہموار نباشی‘‘ اے شیخ عبدالحق! محدّث اور مشکوٰۃ شریف کی شرح لکھنے والے! خشک ملّا مت رہ، ناہموار مت رہ، جا! کسی اﷲ والے کو پکڑ اور اس کی صحبت اختیار