آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
لوگ بدمعاشیاں تو کرگئے، تھوڑی دیر کے لیے حرام لذت لوٹ کر منہ کالا کرگئے مگر ان کی لعنتیں ہمیشہ قائم رہیں گی، ان کی بدمعاشیوں کے تذکرے ہوتے رہیں گے، ان کے ظلم اورلعنتیں اور ان کے بُرے طریقے جاری رہتے ہیں، جس کے ساتھ یہ بدفعلی کرتا ہے وہ اگلے سے بدفعلی کرتا ہے، قیامت کے دن معلوم ہوگا اس خبیث حرکت کا، اس لیے توبہ کریں ایسے لوگ اور یہ بھی کہیں کہ یااﷲ! میرے گناہوں کی معافی بھی دیجیے اور اس کے نقصاناتِ لازمہ اور متعدیہ کی تلافی بھی کیجیے، بالغ ہونے کے بعد سے ہم سے جو گناہ ہوگئے ان کی معافی بھی دیجیے اور آپ کی مخلوق کو میری ذات سے جو نقصان پہنچا کہ میں نے ان کی عادت خراب کی ان نقصانات کی بھی تلافی فرمادیجیے یعنی جذب کرکے ان کو بھی اﷲ والا بنادیجیے، ایسا نہ ہو کہ میرے بُرے عمل کی تقلید کرتے ہوئے وہ آگے گناہ کریں تو اس کا وبال بھی ہمارے سر آئے ؎ مجھ کو جینے کا سہارا چاہیے غم تمہارا دل ہمارا چاہیےوہی ڈھونڈتے ہیں جو ہیں پانے والے جو اﷲ سے اﷲ کو مانگتا ہے تو سمجھ لو کہ اس کو اﷲ ملنے والا ہے، کیوں کہ درخواست کی توفیق بھی وہی دیتاہے ؎ انہی کو وہ ملتے ہیں جن کو طلب ہے وہی ڈھونڈتے ہیں جو ہیں پانے والے اور جگرؔ کے استاد اصغر گونڈوی کا شعر ہے ؎ میں سمجھتا تھا مجھے ان کی طلب ہے اصغرؔ کیا خبر تھی وہی لے لیں گے سراپا مجھ کو درخواست کی توفیق ان کو دیتا ہے جن کو دینا ہوتا ہے۔ جس بچے کو لڈو دینا ہوتا ہے تو ابّاکہتا ہے کہ بیٹا مجھ سے لڈو مانگو، تو جس کو اﷲ اپنا بنانا چاہتا ہے اور اپنی محبت کا غم اور نسبتِ ولایت دینا چاہتا ہے اسی کو درخواست بھی سکھاتا ہے۔