آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
بوڑھے کے ساتھ گزار سکتا ہے؟ مگر جب حضرت اﷲ کہتے تھے، تو مجھے اتنا مزہ آتا جیسے دنیا سمٹ کر میرے شیخ کے قدموں میں آگئی ہو ؎ وہ اپنی ذات سے خود انجمن تھے اگر صحرا میں تھے پھر بھی چمن تھے یہ میرا شعر ہے اپنے شیخ کے بارے میں۔اللہ والوں کے انوارِ قلب ان کے چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں کوئی اﷲ والا کہیں مل جائے تو سمجھ لو وہ اکیلا نہیں ہے وہ حاصلِ دو جہاں ہے، کیوں کہ خالقِ دو جہاں کو لیے ہوئے ہے اور اس کے دل میں اللہ کی عبادت کا نور ہے۔ جب عبادت کا نور دل کے اندر بھر جاتا ہے تو قلب سے چھلکنے لگتا ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ صحابہ کے انوارِ قلب جب دل سے چھلک کر چہرے سے جھلکنے لگے اور آنکھوں سے ٹپکنے لگے تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ ان کے چہروں پر ان کے باطن کے انوارات کی علامات موجود ہوتی ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے سِیْمَا کی تفسیر کی ہے کہ سِیْمَا کیا چیز ہے؟ سِیۡمَاہُوَ نُوْرٌ یَّظْہَرُ عَلَی الْعَابِدِیْنَ یَبْدُوْ مِنْ بَاطِنِھِمْ عَلٰی ظَاہِرِھِمْ؎ سیما ایک نور ہے جو عبادت کرنے والوں کے جسم پر ان کے باطن سے ظاہر ہوتا ہے، جب باطن بھر جا تا ہے تو چھلک کر آنکھوں سے ٹپکنے لگتا ہے اور چہرے سے جھلکنے لگتا ہے۔نگاہِ اولیاء کی کرامت تفسیر موضح القرآن کے مصنف شاہ عبد القادر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ، شاہ ولی اﷲ کے بیٹے، جنہوں نے چودہ سال میں تفسیر موضح القرآن لکھی اور جس پتھر پر ہاتھ سے ٹیک لگا کر لکھتے تھے اس پتھر پر گڑھا پڑگیا تھا، تو کئی گھنٹے عبادت کے بعد جب وہ باہر نکلے تو ایک کتا بیٹھا تھا اس پر نظر پڑ گئی۔ اس کتے کی یہ حالت ہوگئی کہ دِلّی میں جہاں جاتا تھا ساری دِلّی کے کتے اس کے پاس ادب سے بیٹھتے تھے۔ آہ! یہ اﷲ کانور ہے، مخلوق کانور ------------------------------