آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
اہل اللہ کو پہچاننے کے لیے دیدۂ بینا چاہیے اگر تمہیں اﷲ والوں کی پہچان ہوجائے تو اﷲ کی پہچان بھی ہوجائے گی۔ بہت سے لوگ اﷲ والوں کو اپنے برابر سمجھتے ہیں، اولیاء کو پہچاننے کے لیے دیدۂ بینا چاہیے۔ خلیفۂ بغداد نے لیلیٰ کو بلایا، دیکھو! لیلیٰ کانام سنتے ہی سب کے چہرے پر شگفتگی آگئی، بولو چہرہ بدل گیا کہ نہیں؟یہ ظالم لیلیٰ عجیب تھی کہ آج تک سب کو پاگل کررہی ہے، مجنوں تو پاگل ہوا تھا، مگر قیامت تک اس نے پاگل بنانے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ تو خلیفہ بغداد نے لیلیٰ کو بلایا اور اس سے جو کہا اسے مولانا رومی یوں بیان کرتے ہیں ؎ گفت لیلیٰ را خلیفہ کاں توئی کز تو مجنوں شد پریشان و غوی خلیفہ نے پوچھا کہ کیا تو ہی وہ لیلیٰ ہے جس کی وجہ سے مجنوں پریشان وپاگل ہوگیا ؟ ؎ از دِگر خوباں تو افزوں نیستی گفت خامش چوں تو مجنوں نیستی دوسری حسینوں سے تیرا نمک اور حسن زیادہ نہیں ہے۔ یہ بادشاہ نے کہا۔ اب لیلیٰ کا جواب سنیے، واہ رے لیلیٰ! بادشاہ کو ڈانٹ رہی ہے، کہتی ہے اے خلیفہ! خاموش ہوجا، تو مجنوں نہیں ہے ؎ دیدۂ مجنوں اگر بودے ترا ہر دو عالم بے خطر بودے ترا اگر تجھ کو مجنوں کی آنکھ نصیب ہوتی تو دونوں عالم تجھے بے قدر معلوم ہوتے۔ خطر کے معنیٰ یہاں قدر کے ہیں اور بے خطر بمعنیٰ بے قدر ۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ نے مثنوی پڑھی ہے حکیم الامت سے اور حکیم الامت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے مثنوی پڑھی ہے حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃاﷲ علیہ سے اور اختر نے پڑھی ہے اپنے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃاللہ علیہ سے، تو میرے اور حاجی صاحب میں صرف دو واسطے ہیں۔ تو میرے حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اﷲ علیہ نے جب مجھے مثنوی کے یہ شعر پڑھائے، تو فرمایا کہ اسی طرح اﷲ کو پہچاننے کے لیے دیدۂ مجنوں چاہیے، یعنی جو مولیٰ کے مجنوں ہیں ان سے پوچھو کہ مولیٰ کتنا پیارا ہے۔ یہ بدنظری کرنے والے جو بین الاقوامی الّو اور گدھے ہیں انہیں کیا معلوم کہ اﷲ کتنا پیارا ہے، جو سارے عالم کی لیلاؤں کو نمک دیتا ہے وہ خود کتنا پیارا ہے،