آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ہوتا ہے تو وہاں فوراً فوج آجاتی ہے کہ کوئی لے نہ جائے، تو جس کے قلب میں خالقِ زر ہو تو اﷲ تعالیٰ بھی اُس مٹی کی حفاظت کرتا ہے، کیوں کہ اس مٹی میں اس کی تجلیات اور قربِ خاص ہوتاہے۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اﷲ کی محبت کو غالب رکھو، کیوں کہ سارے دنیاوی مزے فانی ہیں، ایک دن وہ خود ہمیں بھگادیں گے، مکانوں سے ہمارا خروج نہیں ہوگا اخراج ہوگا، ہم نکالے جائیں گے، بیوی بچے کہیں گے کہ بابا کو جلدی سے نکالو، روح نکل گئی تو ہم اپنا کاروبار بھی نہیں دیکھ سکیں گے، بیوی بچوں کو بھی نہیں دیکھ سکیں گے، قوتِ باصرہ مفلوج ہوکے رہ جائے گی، زبان سے کباب اور سموسہ بھی نہیں کھا سکیں گے، زبان کی قوتِ ذائقہ ختم ہوجائے گی، بیوی بچوں اور گاہکوں کی باتیں نہیں سن سکیں گے۔ غرض جتنے اعضا ہیں سب کی قوت ہم سے الگ ہوجائے گی مرنے سے پہلے،جسم میں روح رہے گی، مگر ادراکاتِ قوتِ مدرکہ سب ختم ہوجائیں گے۔ میرا شعر ہے ؎ آکر قضا باہوش کو بے ہوش کر گئی ہنگامۂ حیات کو خاموش کر گئی سیٹھ صاحب بے ہوش پڑے ہیں،آکسیجن لگی ہوئی ہے، اب کہاں گیا کاروبار؟ میں دنیا کمانے کو منع نہیں کرتا، مگر اﷲ والے بن کر دنیا کماؤ، مولیٰ کو ہر وقت دل میں رکھو، دل میں رکھو یار اور باہر رکھو کار اور کاروبار۔ کاروبار بھی رکھو، کیوں کہ کاروبار ہوگا پیسہ ہوگا،تو اسے اﷲ پر فدا بھی کرسکو گے، مسجد مدرسے بنوا سکو گے، دین کی کتابیں چھاپ سکو گے۔سفرِ ملاوی اس دفعہ حضرتِ والا کو ملاوی کے سفر کی دعوت دی گئی تھی اور حضرتِ والااس بار ملاوی جانے کے لیے جنوبی افریقہ تشریف لائےتھے۔چناں چہ آج ۱۸؍جمادی الثانی ۱۴۱۹ھ مطابق ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۹۸ء، محبی ومحبوبی مرشدی ومولائی عارف باللہ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب مدظلہم العالی نے مع احباب و خدام ملاوی کا سفر فرمایا۔ پہلے سے طے شدہ نظم کے مطابق حضرت مولانا محمد ایوب سورتی صاحب دامت برکاتہم اور چند دیگر حضرات سفر کی ہمراہی کے لیے برطانیہ سے جنوبی افریقہ تشریف لائے اور وہاں سے ایک ہفتہ کے لیے ملاوی کا سفر ہوا جہاں مختلف شہروں میں حضرتِ والا دامت برکاتہم کے بیانات ہوئے جن سے عظیم الشان نفع ہوا۔ حضرتِ والا کے بیانات میں بہت سے مقامات پر وہ لوگ بھی شامل ہوئے جو نادانی کی