آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
خباثتِ عقلیہ و خباثتِ طبعیہ اور ان کا علاج ارشاد فرمایا کہ ؎ اے ہوائے کوئے جاناں اس قدر خوشبو ہے کیوں سخت حیرت ہے کہ سب کی ناک پر انگلی ہے کیوں یہ میرا شعر ہے، میری شاعری مذاق نہیں ہے، یہ شعر میں نے اپنے دوستوں کو غیراﷲ سے بچانے کے لیے کہا ہے، کیوں کہ اگر ہمارے قلب سے لیلیٰ نکل جائے تو پھر مولیٰ ہی مولیٰ ہے ،البتہ بیوی مستثنیٰ ہے، اس کی محبت حُبِّ مولیٰ میں داخل ہے، کیوں کہ حکم ہے عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ؎ اپنی بیویوں سے اچھے سلوک سے پیش آؤ، وہاں خان صاحب نہ بنو، تو ان اشعار سے لیلاؤ ں کی عظمتیں ختم ہوجاتی ہیں، ہاں خباثتِ طبع اور بات ہے، خباثتِ عقلیہ کا علاج ہوجاتاہے، خباثتِ طبعیہ کے علاج کے لیے اہل اﷲ کی صحبت میں زیادہ دن تک رہو، یہاں تک کہ اﷲ پاک کی محبت اس پر غالب ہوجائے۔ تو میں نے حسنِ مجاز اور عشقِ مجاز کی عظمتوں کا قلعہ اس شعر سے منہدم کردیا تاکہ عقلی طور پر ان کی عظمت نہ آنے پائے ورنہ پھر اس کی اصلاح مشکل ہے، اور اصلاح عقلاً ہی مقصود ہوتی ہے طبعاً نہیں اور طبعاً پر مواخذہ بھی نہیں ہے مگر آہستہ آہستہ طبعاً بھی وحشت ہوجائے گی۔ایک چور کی ہیرا پھیری کا واقعہ مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے ہاتھ پر ایک چور نے چوری سے توبہ کی، مگر کبھی کبھی نمازیوں کے جوتے اِدھر اُدھر کردیتا تھا، اب لوگ پریشان ہونے لگے، بعد میں پتا چلا کہ وہی چور ہے جس نے توبہ کی تھی۔حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے بلا کر پوچھا کہ جب تم نے چوری سے توبہ کرلی تو پھر یہ کیا کررہے ہو؟ اس نے کہا حضرت یہ چوری نہیں ہے، یہ ہیرا پھیری کررہا ہوں۔ میرے نفس میں جب چوری کا تقاضا ہوتا ہے تو میں چوری کرنا تو حرام سمجھتا ہوں، لیکن تھوڑی سی ہیرا پھیری کر کے نفس کو تسلی دیتا ہوں۔ اس لیے مزاج رومانٹک رکھو تاکہ نفس کو تسلی رہے، ورنہ کہے گا ہائے کس خشک ملّاکے ہاتھ لگ گیا ؎ ------------------------------