آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
تو پہلی ہی ملاقات میں ان کے دل میں میری اور میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہوگئی۔ افریقہ میں اور بہت سے لوگوں نے کہا کہ ہم بھی کرایہ دینا چاہتے ہیں، مگر انہوں نے کہا کہ میں اس نیکی میں کسی کو پارٹنر نہیں بناؤں گا، یہ ثواب میں کسی کو نہیں لینے دوں گا۔ اگر دل میں محبت نہ ہو تو آدمی سوچتا ہے کہ دوسروں کو موقع دو اور اپنی جان چھڑاؤ، لیکن عاشق جان نہیں چھڑاتا جان فدا کرتا ہے، تو ان کی محبت نے گوارا نہیں کیا کہ کوئی اور بھی اس میں حصہ لے، تو اب دعا کرو کہ جو کام پورے افریقہ میں ہورہا ہے اس کا ثواب سب کو دے اور ان کو بھی دے۔ تو کتنا فرق ہوگیا کہ اگر مرید خود اپنا عمل ظاہر کرے تو گناہ اور شیخ ظاہر کرے تو سنت اور ثواب ہے، لہٰذا شیخ پر مرید کے نیک عمل کا اِخفاء واجب نہیں،کیوں کہ جب سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے غزوۂ تبوک میں ایک تہائی فوج کا انتظام کیا، تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے دیے ہوئے دنانیر اور دراہم کو ایک ہاتھ میں لے کر دوسرے ہاتھ میں الٹتے پلٹتے رہے اور ان دراہم کی آواز سنی اور سنائی اور خوشی کا اظہار فرمایا اور یہ دعا دی کہ اے اﷲ! تیرا نبی عثمان سے راضی ہوگیا تو بھی عثمان سے خوش ہو جا۔ریا کی تعریف و توضیح تو علماء حضرات بتاؤ یہ سنت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اﷲ کے راستے میں پیسہ دے تو اس سے خوشی ظاہر کرنا بھی سنت ہے، اس کو دعا دینا بھی سنت ہے اور اس کا اظہار کرنا بھی سنت ہے، اس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس میں اس کا دِکھاوا نہیں ہوتا، دِکھاوا جب ہوتا ہے جب وہ خود دِکھائے، اور جب اپنا بڑا، مربّی، پیرو مرشد دکھائے تو وہ دِکھاوا نہیں ہے بلکہ قبولیت کی امید ہے ان شاء اﷲ، کیوں کہ رِیا اور دِکھاوے کی تعریفحکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ کی ہے: اَلْمُرَااٰۃُ فِی الْعِبَادَاتِ لِغَرَضٍ دُنْیَوِیٍّ جو اپنی عبادت دنیاوی غرض سے خود دِکھائے، جیسے ایک آدمی کسی بادشاہ کو دکھانے کے لیے لمبی لمبی نمازیں پڑھے، ویسے تو روزانہ رکوع میں تین دفعہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمپڑھتا ہے اور جب کوئی بادشاہ مہمان ہوا تو سات دفعہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمپڑھ رہا ہے تا کہ اس کو معلوم ہو کہ یہ خدا کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے اور اب بہت موٹی رقم ملے گی، تو یہ دنیاوی غرض کے لیے ہوا، یہ دِکھاوا ہے، لیکن اﷲ کے لیے عمل دکھانا یہ ریا نہیں