آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
کم سے کم خطا ہو، خطا کرنا اور ہے اور خطا ہوجانا اور ہے، گٹر میں گرنا اور ہے اور اپنے کو گرانا اور ہے، گٹر میں گرا گرا کر حرام لذت کشید کرنا اور ہے اور احیاناً اگر کبھی بشریت سے مغلوب ہوکر نظر پڑجائے تو فوراً نظر ہٹا کر اﷲ سے استغفار و توبہ اور ندامت کے ساتھ معافی مانگ لو۔ تو قلب جس درجے مستنیر ہوگا اور حیلولتِ نفس کو الگ کرے گا تو ا س کا قلب چودہ تاریخ کے چاند کی طرح پورا روشن ہوگا پھر اس کے الفاظ میں اور اس کے چہرے میں فرق آجائے گا، اس کا چہرہ ترجمانِ قلب ہوگا اور قلب میں مولیٰ کی تجلیات من وعن چودہ تاریخ کے چاند کی طرح ہوں گی اور اس کا چہرہ ترجمانِ تجلیاتِ الٰہیہ متواترہ، مسلسلہ، وافرہ، بازغہ ہوگا کیوں کہ وہ ہر وقت غم اُٹھا رہا ہے مگر چوں کہ وہ اﷲ کے راستے کا غم ہے اس لیے وہ غم بڑا پیارا ہوتا ہے، دنیاوی غم کی طرح وہ قلب کو بے چین نہیں کرتا بلکہ اور چین دیتا ہے کیوں کہ وہ اﷲ کے راستے کا غم ہے، وہ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ ہے، اﷲ کے راستے کا قیدخانہ گلستان سے زیادہ عزیز ہوتا ہے، جب اﷲ کے راستے کا قید خانہ احب ہے تو پھر ان کی راہ کے گلستان کیسے ہوں گے!مجاہدۂ مسلسلہ کا انعامِ عظیم تو عرض کررہاتھا کہ حفاظتِ نظر کے بعد ؎ دل جو ٹوٹا تو اسے قرب کا اعزاز ملا تو آج کل مسلسل عریانی کے زمانے میں یہ مجاہدہ مسلسل ہے، تو جب یہ مجاہدہ مسلسل ہے تو اﷲ کی تجلیات کا مشاہدہ بھی متواترہ ہوگا، مسلسلہ ہوگا، وافرہ ہوگا، بازغہ ہوگا۔ اب میرا شعر سنیے ؎ مرے حسرت زدہ دل پر اُنہیں یوں پیار آتا ہے کہ جیسے چوم لے ماں چشمِ نم سے اپنے بچے کو اس شعر کا فیچر سمجھ لیجیے۔ اماں نے کہا کہ بیٹا تمہیں آج کل پیچش ہے، کباب مت کھاؤ اور اس کے دس بچے اس کو دکھا دکھا کے کباب کھارہے ہیں تو وہ روتا ہے کہ اماں آپ نے ہم پر پابندی عائد کردی، تو ماں غلبۂ رحمت سے اسے گود میں اٹھالیتی ہے او ر اپنے دامن سے اس کے آنسو کو پونچھتی ہے، اسے پیار کرتی ہے، اس کے گال چومتی ہے اور کہتی ہے کہ بیٹا گھبراؤ مت! تم کچھ دن مجاہدہ کر لو پھر ہم تمہیں بھی خوب کباب کھلا ئیں گے۔ اب اس فیچر کو سمجھنے کے بعد میرے اس شعر کا مزہ آئے گا ؎