آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
نسبت کی تعریف ارشاد فرمایا کہ ایک سوال ہے، کیا خالی صاحبِ نسبت کی صحبت سے کوئی صاحبِ نسبت ہوسکتا ہے؟ جواب یہی ہے کہ کسی شیخ کی طرف سے اس کی نسبت کو تسلیم کیا گیا ہو تب وہ معتبر ہے، اپنی طبیعت سے جو اپنے کو صاحبِ نسبت سمجھتا ہے اس میں احتمالِ خطرہ ہے، کیوں کہ بعض وقت میں ملکۂ یادداشت سے آدمی اپنے کوصاحبِ نسبت سمجھتا ہے اسے ہر وقت محسوس ہوتا ہے کہ مجھے اﷲ کی حضوری ہے وہ ملکۂ یادداشت ہے، نسبت کے معنیٰ ہیں تعلقِ طرفین، بندے کو اﷲ سے اور اﷲ کو بھی بندے سے تعلق ہو، بعض وقت بندہ اپنے کو صاحبِ نسبت سمجھتا ہے حالاں کہ اﷲ تعالیٰ کے رجسٹر میں اس کی ولایت ہے ہی نہیں۔ اس کی مثال میں مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ میری شادی ہو رہی ہے بادشاہ کی لڑکی سے اور بادشاہ کو اس کی خبر بھی نہیں ہے ؎ خانہ داماد پَر از شور و شر خانہ دختر نہ بودے زاں خبر لڑکی والے کو پتا ہی نہیں ہے ؎ وَقَوْمٌ یَّدَّعُوْنَ وِصَالَ لَیْلٰی وَلَیْلٰی لَاتُقَرِّبُھُمْ بِذَاکَ لیلیٰ کے مجنوں بن رہے ہیں اور لیلیٰ کے رجسٹر میں ان کا نام ہی نہیں ہے۔ تو نسبت تعلقِ طرفین کا نام ہے یعنی بندے کو اﷲ سے تعلق ہو اور اﷲ کو بندے سے تعلق ہو۔ اور اگر کسی شیخ نے بتا بھی دیا ہے کہ تم صاحبِ نسبت ہو، لیکن اگر نسبتِ متعدیہ حاصل نہیں ہے تو اس سے فیض نہیں ہوگا، خود صاحبِ نسبت رہے گا، ولی تو رہے گا مگر ولی ساز نہیں ہوگا۔ چراغ مدھم ہو تو روشنی تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ نور ہے مگر ٹمٹماتا ہواہے، کوئی آدمی چراغ لے کر گیا کہ میں بھی اپنی بتی اس سے لگا کر روشنی لے لوں تو جب بتی ٹچ ہوئی تو وہ روشنی بھی بجھ گئی۔ تو قوی نسبت ہونی چاہیے، خالی منوَّر ہونا کافی نہیں ہے منوِّر ہونا چاہیے۔حضرتِ والا کی شرحِ مثنوی پر حضرت پھولپوری کی قدر دانی ارشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ میں اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری کے پاس دل میں