آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
ایسی حدیثوں کو اصطلاحِ حدیث میں حدیثِ قدسی کہا جاتا ہے۔ تو حدیثِ قدسی ہے: لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ؎ گناہ گاروں کا رونا، آہ وزاری کرنا، رو رو کے معافی مانگنا سارے عالم کے مسبّحِینیعنی عالمِ ملکوت کے فرشتوں کی تسبیحات اور عالمِ ناسوت یعنی اس زمین پر سبحان اﷲ کہنے والوں سے زیادہ اﷲ کو پسند آتا ہے، اﷲ کو اپنے گناہ گار بندوں کا رونا تسبیحات سے زیادہ محبوب ہے، یہی دلیل ہے کہ اﷲاﷲ ہے، کیوں کہ جب دنیاوی سلاطین اور بادشاہ کا استقبالیہ ہوتا ہے اور وہاں کوئی رونے والا آجائے تو دھکا مارا جاتا ہے کہ بادشاہ کا استقبالیہ ہورہا ہے، تو کیوں رنگ میں بھنگ ڈالتا ہے؟ نکل یہاں سے نالائق، کل آنا، لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے استقبالیہ یعنی تسبیحات کی اتنی قدر نہیں کرتے، کیوں کہ ہمارے سبحان اﷲ کہنے سے اﷲ پاک نہیں ہوتے، ہم پاک ہوتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ؎ من نگر دم پاک از تسبیح شاں پاک ہم ایشاں شوند و درفشاںاللہ تعالیٰ احتیاج سے پاک ہے اے دنیا والو! جب تم سبحان اﷲ کہتے ہو تو تمہاری سبحان اﷲ سے ہم نہیں پاک ہوتے۔ اگر سارا عالم سبحان اﷲ کہے، سارا عالم سربسجود ہوجائے، سارے عالم میں ایک بھی کافر نہ رہے سب مسلمان ہوجائیں، سب ولی اﷲ بھی ہوجائیں اور اولیائے صدیقین کی خط انتہا تک بھی پہنچ جائیں تب بھی اﷲ تعالیٰ کی عزت وعظمت میں ایک ذرّہ اضافہ نہیں ہوگا، کیوں کہ سارے عالم کے سربسجود ہونے سے اور ان کے ایمان لانے سے اور اﷲ تعالیٰ پر فدا ہونے سے اگر اﷲ تعالیٰ کی عظمت میں ایک اعشاریہ اضافہ ہوجائے تو یہ اضافہ دلیلِ احتیاج ہے کہ اﷲ تعالیٰ محتاج تھا کہ اتنا اعشاریہ اﷲ کی عظمت میں اپنے بندوں کی تعریف اور تعظیم اور تکریم اور توقیر سے اضافہ ہوا، اور اگر سارا عالم کافر ہوجائے، پوری دنیا میں ایک مسلمان بھی نہ رہے تو اﷲ تعالیٰ کی عظمتوں کو ایک ذرّہ نقصان نہیں پہنچے گا، اگر نقصان پہنچ گیا تو معلوم ہوا کہ اس عالم سے اﷲ تعالیٰ کا احتیاج ثابت ہورہا ہے جو محال اور ناممکن ہے۔ ------------------------------