آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے سفارش کی تھی کہ اے یوسف! عزیزِ مصر کی بیوی کی گناہ کی بُری خواہش تم مان لو، اس کا دل خوش کردو، ورنہ یہ قید خانے میں ڈلوادے گی، تو آپ نے فرمایا: رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ ۚ؎ یَدْعُوْنَجمع مؤنث ہے جبکہ واحد نے بُری خواہش ظاہر کی تھی یعنی عزیزِ مصر کی بیوی نے، لیکن جن عورتوں نے اس شر کی حمایت اور سفارش کی تھی اور اس کی بُری خواہش کو پورا کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اَلدَّالُّ عَلَی الشَّر ہوئی تھیں تو اﷲ تعالیٰ نے انہیں بھی اُتنا ہی مجرم قرار دیا اور ان کو یَدْعُوْنَفرما کر اس جرم میں داخل قرار دیا۔ اس طرف ذہن کم جاتا ہے اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْر تو سب بتاتے ہیں، مگر دَلَالَۃ عَلَی الشَّر بھی اتنا ہی جرم ہے جتنا کہ فاعلِ شر کا جرم۔ تو اﷲ تعالیٰ نے جمع مؤنث یَدْعُوْنَ نازل کرکے عزیزِ مصر کی بیوی کے ساتھ مصر کی ان تمام عورتوں کو بھی جنہوں نے دَلَالَۃ عَلَی الشَّر کیا تھا مجرمات میں داخل کردیا۔بغیر صحبتِ شیخ کیفیتِ احسانیہ حاصل نہیں ہوسکتی ایسے ہی جو شخص کہے کہ بھئی کسی اﷲ والے سے تعلق جوڑ لو، بغیر پیر کے مت رہو تو یہ بھی اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْر ہے کیوں کہ بغیر پیر کے جو رہتا ہے، جس کا کوئی مربّی نہیں ہوتا وہ مربّہ نہیں بن سکتا، کتابوں سے کوئی کیفیاتِ احسانیہ نہیں پاسکتا، کیفیتِ احسانیہ قلب سے قلب میں منتقل ہوتی ہے۔ اخلاص اور اﷲ کی حضوری یعنی احسان یہی ہے اَنْ یُّشَاھِدَ رَبَّہٗ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَ نَّہٗ یَرَی اللہَ تَعَالٰی شَانُہٗ بِعَیْنِہٖ؎یعنی اﷲ تعالیٰ کو ہر وقت اپنے دل کی آنکھ سے دیکھے کہ اﷲ مجھ کو دیکھ رہا ہے، یہ کیفیت ہے کمیت نہیں ہے۔ نبی کے قلبِ مبارک میں اتنی بڑی احسانی کیفیت تھی کہ صحابہ نے قلبِ نبوت سے جو کیفیتِ احسانیہ حاصل کی وہ اب کسی کو نہیں مل سکتی، لہٰذا اب قیامت تک کوئی صحابی نہیں ہوسکتا، کیوں کہ قلبِ نبوت نہیں پاسکتا۔ اولیاء سے جس کے اندر کیفیتِ احسانیہ منتقل ہوتی ہے تو وہ ولی تو ہوسکتا ہے صحابی نہیں ہوسکتا، کیوں کہ صحابی وہہوتا ہے جس کو کیفیاتِ احسانیہ نبی کے قلب سے حاصل ہوں۔ تو کیفیاتِ احسانیہ کے لیے کچھ دن جا کے شیخکے ساتھ رہو ؎ ------------------------------