آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
مثل منگولیا کے ریگستان ہوجاتا۔ تو ایک اﷲ والے نے کہا کہ اے سائنس دانو! یہ خلیج بنگال کس نے پیدا کیا؟ سمندر اور جس سورج کی گرمی سے بادل پیدا ہوتے ہیں اُس سورج کو کس نے پیدا کیا؟ اور ہمالیہ پہاڑ کس نے پیدا کیا؟ پھر بادلوں کو ہواؤں کے کندھے پر کون اُڑاتا ہے؟ تم لاکھ کہو کہ بادلو! جلدی سے یہیں برس جاؤ میری کھیتی سوکھ رہی ہے، تو یہ تمہارے اختیارمیں ہے؟ اﷲ جہاں چاہتا ہے بادلوں کو بھیجتا ہے۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ علماء دین کے لیے ایک شعر میں مشورہ پیش کرتے ہیں ؎ رحمت کا ابر بن کے جہاں بھر میں چھائیے عالم یہ جل رہا ہے برس کر بجھائیے تویہ بتلا رہا ہوں کہ یہ سورج وچاند وقت پر نکلتے ہیں کہ نہیں؟ بتاؤ کبھی ایسا ہوا کہ جبرئیل علیہ السلام نے اعلان کیا ہو کہ اے دنیا والو! آج سورج ایک دو گھنٹہ لیٹ ہے، ذرا اسکرو ڈھیلا ہوگیا ہے اور سب فرشتے اس کو ٹائٹ کررہے ہیں، آپ لوگوں نے کبھی ایسا سنا؟ آہ! کیا یہ سب نشانیاں اﷲ کو پہچاننے کے لیے کافی نہیں ہیں؟ اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے ؎ وہ دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا ہم جان گئے بس تری پہچان یہی ہےروحانی بلوغ اور اس کے ثمرات لیکن اﷲ والوں کے ساتھ رہو تو ایمان بالغیب بھی ایمان بالمشاہدہ ہوجاتا ہے۔ دل میں جب مولیٰ آتا ہے چاہے دل نظر نہ آئے، مگر مولیٰ جب دل میں آتا ہے تو گویا دریا میں پانی آجاتا ہے، اگر دریا میں پانی آجائے تو دریا کو پتا چلتا ہے یا نہیں ؎ باز آمد آبِ من در جوئے من اﷲ ہمارے دل میں جب آتا ہے تو محسوس ہوجاتا ہے۔ خواجہ صاحب نے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے پوچھا تھا کہ جب دل میں خدا آتاہے اور انسان صاحبِ نسبت ہوتا ہے، تو کیا اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میرے دل میں مولیٰ آگیا؟ تو حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خواجہ صاحب! جب آپ بالغ ہوئے تھے تو کیا آپ کو دوستوں سے پوچھنا پڑا تھا کہ میرے دوستو! میں بالغ ہوا یا نہیں؟ یا خود انسان کو اپنے بالغ