آفتاب نسبت مع اللہ |
س کتاب ک |
|
نہیں اٹھا، سب دو رکعات نفل عشاء کے وقت ہی پڑھ کر سو گئے ، اب اگر کوئی آدمی آدھی رات کو تہجد کے لیے اٹھے گا تو شیطان وہاں پہنچ جائے گا کہ دیکھو تم کتنی وی آئی پی شخصیت ہو، سب پڑے سو رہے ہیں اور تم اﷲ کے حضور میں لگے ہوئے ہو۔ یاد رکھو! اگر اس سے دل میں بڑائی آگئی، تو اس سے بہتر تھا کہ تم تہجد نہ پڑھتے اور اپنے کو حقیر سمجھتے۔شیخِ کامل کو نادان نہیں پہچان سکتا چناں چہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ میں ریل کے سفر میں تھا، فرسٹ کلاس کا ڈبہ تھا، میں رات کو عشاء پڑھ کر سو گیا اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، میرا ایک مرید اسی فرسٹ کلاس میں میرے ساتھ تھا، اس نے رات کو اٹھ کر تہجد پڑھی اور شیطان نے اس کے دماغ میں تکبر ڈال دیا، اس نے گھر جا کر خط لکھا کہ میں آپ سے بیعت توڑتا ہوں، کیوں کہ آپ نے تہجد نہیں پڑھی اور میں نے تہجد پڑھی، مرید تو تہجد گزار ہے مگر شیخ تہجد گزار نہیں ہے۔ تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھ لو، اس ظالم کو یہ خیال نہیں ہوا کہ میں مسافر ہوں اور عالم کا سونا بھی عبادت ہے۔ اور حضرت نے کیا مثال دی کہ ایک بڑھئی نے آپ کا دروازہ بنایا اور اس کا جو اوزار ہے جس سے وہ رَندہ کرتا ہے، لکڑی چھیلتا ہے، صفائی کرتا ہے، لکڑی کو خوبصورت کرتا ہے تو لوہے کا وہ اوزار گِھس گیا، اب اس نے پتھر نکالا اور اس اوزار کو پتھر پر ایک گھنٹہ تک گِھسا، تو اس ایک گھنٹہ کی مزدوری بھی اس کو دینا واجب ہے، کیوں کہ آپ ہی کے کام میں تو اس کا اوزار گِھسا ہے، لہٰذا اس وقت کی مزدوری بھی دینی پڑے گی۔ تو مولانا گنگوہی فرماتے ہیں کہ جب عالم کا دماغ اﷲ کے سرکاری کام میں تھک گیا تو اس کا سونا بھی عبادت ہے، کیوں کہ وہ اﷲ ہی کے کام میں تھکا ہے اور حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ اﷲ والوں کی دو رکعات عام لوگوں کی ایک لاکھ رکعات سے افضل ہے۔ تو شیخ کے بارے میں دو تصور کرو: نمبر۱: اس کی دو رکعات ہماری ایک لاکھ رکعات سے افضل ہے، نمبر۲: شیخ ہر وقت سرکاری کام میں مصروف رہتا ہے، بولنا پڑتا ہے،سمجھانا پڑتا ہے، اسی لیے کہتا ہوں کہ میرے لیے تو آرام بہت ہی ضروری ہے اور میں نے بتادیاکہ جو عشاء کے چار فرض، دو سنت پڑھ کر وتر سے پہلے دو رکعات پڑھ لے گا، تو حکیم الامت نے امداد الفتاویٰ میں لکھا ہے کہ وہ قیامت کے دن تہجد گزار ہوگا۔ آج کل کے زمانے میں قوتیں بہت کمزور ہیں، اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ دو رکعات نفل عشاء کے